کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 530
’’بے شک کتا اجنبی سے افضل ہے، اس لیے کہ یہودی کو اجازت ہے کہ وہ عیدوں کے مواقع پر کتے کو کھانا کھلائے ؛ مگر کسی اجنبی کو کھانا کھلانے کی اجازت ہر گز نہیں۔ اور اس کو اس بات کی اجازت بھی نہیں ہے کہ اس (اجنبی) کو گوشت کا ٹکڑا دے دے؛ بلکہ وہ ٹکڑا کتے کے سامنے ڈالنا چاہیے ؛ اس لیے کہ کتا ان سے افضل ہے۔‘‘[1]
یہی نصوص ہیں جو کہ یہودیوں کی بد اخلاقیوں کی خبر دیتی ہیں، اور یہود ان کی روشنی میں اپنے تمام مخالفین سے سلوک روا رکھتے ہیں۔یہ نصوص بہت تھوڑی ہیں ان جیسی بہت ساری نصوص میں نے طوالت کے خوف سے ترک کردی ہیں۔ متروکہ نصوص ان سے کئی گنا زیادہ ہیں جو کہ ذکر کی ہیں۔اور ان باتوں سے بھی اجتناب کیا ہے جن کو ذکر کرنے کی اجازت اخلاق نہیں دیتا، اور نہ ہی مروت ان کے بیان کی متحمل ہوسکتی ہے۔
اورعمومی طور پر میری ذکر کردہ نصوص اس غرض کوپورا کرنے کے لیے کافی ہیں جس کی وجہ سے میں نے یہ مبحث قائم کی ہے۔ إن شاء اللّٰہ
وہ غرض یہودیوں کے اپنے مخالفین کو حقیر جاننے پر دلیل قائم کرنا تھا۔ میرے خیال کے مطابق ان ذکر کردہ نصوص کی روشنی میں یہ مقصد پورا ہوچکا۔
سو اللہ تعالیٰ ہی کے لیے حمد و ثنا ہے، اسی کا فضل ہے،اور اسی کی توفیق سے یہ ممکن ہوا۔
دوسری بحث :… روافض کا اپنے علاوہ سب کو حقیر جاننا
رافضی اپنے علاوہ باقی لوگوں کو حقارت اور اہانت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ اور ان کا اپنے علاوہ باقی لوگوں کو حقیر جاننے کی حقیقت ان برے القاب و صفات سے ظاہر ہوتی ہے جن صفات اور القاب کا اطلاق وہ اپنے مخالفین [غیر یہود ] پر کرتے ہیں۔
رافضی اپنے مخالفین پر جن صفات کا اطلاق کرتے ہیں وہ بھی بہت ہی زیادہ ہیں ؛ ان کا شمار ممکن نہیں۔ اس لیے کہ ان کی کوئی بھی کتاب اس سے خالی نہیں۔ جوامر مجھے اس بحث میں رافضیوں کے اپنے مخالفین کے ساتھ بعض اہم ترین مواقع پر احادیث کا احاطہ کرنے پر ابھارتا ہے؛ جس کے ذیل میں رافضیوں کے اپنے مخالفین پر بہت سارے قوادح اور مطاعن درج ہیں ؛ وہ مواقف یہ ہیں :
۱۔ ا ن کا یہ اعتقاد کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے مخالفین کو ان کی مٹی سے ہٹ کر کسی اور مٹی سے پیدا کیا ہے۔ اور بے شک ان کے یہ مخالفین آگ سے پیدا کیے گئے ہیں۔
[1] اسرائیل و تلمود ص: ۸۰۔
[2] ’’ الیہود النور والإسلام‘‘ ص: ۷۳؛ بواسطۃ عبد اللّٰه ٹل: خطر الیہودیۃ العالمیۃ علی الإسلام و المسیحیۃ ص: ۸۰۔
[3] ڈاکٹر روہلنج : الکنز المرصود ص: ۶۸۔
[4] ڈاکٹر روہلنگ: الکنز المرصود ص: ۶۸۔
[5] اسرائیل و تلمود ص: ۶۹۔