کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 53
شک اللہ تعالیٰ معاف کرنے والوں کو بہترین بدلہ دیتے ہیں۔ ‘‘
جب یہ خط شہروں میں پڑھ کر سنایا گیا تو لوگ رونے لگے اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے لیے دعائیں کرنے لگے۔‘‘[1]
ابن سبا اور اس کے فتنہ گر ساتھی اس شفقت و حکمت سے بھر پور سیاست پر راضی نہ ہوئے۔ اس لیے کہ ابن سبا نہ تو اصلاح چاہتا تھا اورنہ ہی وہ اسلام میں داخل ہوا تھا۔ اس کے دل میں تو ایک خاص ہدف تھا … جس کے لیے وہ اسلام کا لبادہ اوڑھ کر کام کررہا تھا…!!
خلیفہ راشد جناب حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کا یہ موقف اس خبیث یہودی کے اہداف سے ٹکراتا تھا۔ اس لیے اس نے کبار صحابہ رضی اللہ عنہم کے نام سے لوگوں کو جھوٹے خط لکھنے کا طریقہ ایجاد کیا۔ جن میں لوگوں کوحضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور ان کے امراء کے خلاف بھڑکایا جاتا۔ یہی نہیں بلکہ خود خلیفہ کی طرف سے لوگوں کو جھوٹے خط لکھے۔
ابن کثیر رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے کہ ’’انہوں نے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی جانب سے ایک جھوٹا خط لکھا جس میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف بغاوت کی سازش تھی۔ جب کہ سیّدہعائشہ رضی اللہ عنہا اس کی نفی کرتے ہوئے فرماتی ہیں :
’’مجھے اس ذات کی قسم !جس پر ایمان لانے والے ایمان لائے، ا ور کافروں نے اس کا انکار کیا ؛ میں نے ان کی طرف سفید کاغذ پر ایک کالا حرف بھی نہیں لکھا۔جب سے میں اپنی اس جگہ پر بیٹھی ہوں۔‘‘[2]
ایسے ہی باغیوں نے تہمت لگائی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان کو خط لکھے ہیں کہ وہ مدینہ آئیں۔ انہوں نے قسم اُٹھا کر انکار کیا ؛ فرمایا: ’’ اللہ کی قسم ! میں نے تمہاری طرف کوئی خط نہیں لکھا۔‘‘[3]
اس بد بخت معلون یہودی کی سازشیں مدینہ طیبہ میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف مسلح بغات کی صورت میں انجام کو پہنچیں۔
۳۵ ہجری میں یہ سبائی تحریک اپنے بام عروج پرپہنچ گئی اور اس انقلاب کے داخلی خفیہ عناصر مکمل ہوگئے۔ سبائیوں نے کوفہ، بصرہ اورمصر میں آپس میں خط و کتابت کے ذریعے گہرا رابطہ رکھا۔ اور آپس میں وعدہ کیا کہ اس کے انقلاب کے لیے ان کے دستے مدینہ روانہ ہوں گے۔
ان بلوائیوں نے مدینہ منورہ کا گھیراؤ کر لیا؛ اور کئی باتیں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے سامنے رکھیں۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بلوائیوں سے بہت نرمی سے پیش آئے اور ان کے سوالوں کا جواب دیا۔ مسلمان سمجھ گئے کہ یہ شر پھیلانے والے لوگ
[1] انظر : التاریخ الطبری ۴/۳۴؛ وابن کثیر البدایۃ والنہایۃ ۷/ ۱۶۷؛ وابن الأثیر : الکامل في التاریخ ۳/ ۷۷؛ وابن خلدون : التاریخ ۲/۱۰۳۴
[2] انظر : ابن کثیر : البدایۃ والنہایۃ ۷/۱۷۵۔
[3] التاریخ : خلیفۃ بن خیاط ص ۱۶۹۔