کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 526
تلمود کا ایک کاتب لکھتا ہے : ’’ اے یہودیو! تم بنی بشر سے ہو، اس لیے کہ تمہاری روحوں کا مصدر اللہ کی روح ہے۔ جب کہ باقی امتیں ایسے نہیں ہیں، اس لیے کہ ان کی روحوں کا مصدر نجس روح ہے۔‘‘[1]
ایک دوسری عبارت کی نص میں ہے :
’’ان کے وجود کی ابتدا سے لے کر بت پرست اس جہاں کو گندہ کررہے ہیں، اس لیے کہ ان کی روحیں نجس پہلو سے نازل ہوئی ہیں۔‘‘[2]
ان کا غیروں کے متعلق یہ نظریہ ہے۔ ان کا خیال ہے کہ ان کی روحیں شیطانی ہیں، اور وہ نجس روحوں سے چلی ہیں۔ اس پر ان کا اپنے مخالفین کی نجاست کا عقیدہ مرتب ہوتا ہے۔ اور جب تک کہ ان کی اصل نجاست ہے ؛ وہ کبھی پاک نہیں ہوسکتے۔ یہودیوں کے مخالفین کے نجس ہونے کے بارے میں نصوص ان کے کئی ایک اسفار اور کتاب تلمود میں کئی مواقع پر آئی ہیں۔ سفر لاویین میں (ان کے گمان کے مطابق) اللہ تعالیٰ یہودیوں کو فحاشی سے منع کرنے کے بعد خطاب فرماتے ہیں ؛ ان سے کہتے ہیں :
’’ ان تمام سے نجس نہ ہوجانا، اس لیے کہ ان تمام سے قومیں پلید ہوئیں جنہیں میں تمہارے سامنے سے بھگانے والا ہوں، سو زمین پلید ہوگئی۔‘‘[3]
اس نص کے بعد (ان کے گمان کے مطابق) اللہ تعالیٰ ان سے یوں خطاب کرتے ہیں :
’’تمہیں بھی تمہارے اس زمین کو نجس کرنے کی وجہ سے زمین پر پھینک نہ دے، جیسا کہ تم سے پہلی قوموں کو پھینک دیا تھا۔‘‘[4]
اور ایسے ہی تلمود کے کاتب ’’غویم [5]کے نجس ہونے کے بارے میں صراحت کے ساتھ کہتے ہیں۔ بس فقط یہاں پر سوال اٹھایا جاتا ہے کہ ان کی نجاست کا سبب کیا ہے ؟
پھر تھوڑی ہی دیر میں اپنی خواہشات کے مطابق اس کی علتیں پیش کرنا شروع کرتے ہیں۔ تلمود کا ایک کاتب کہتا ہے:
’’غویم نجس کیوں ہیں ؟اس لیے کہ وہ ردی کھانے کھاتے ہیں۔ اور حیوانات اس کے پیٹ پر جنگ لڑ رہے ہوتے ہیں۔‘‘[6]
تلمود ہی کی ایک فصل جس کا عنوان ہے :’’ أبھوداہ زارہ ‘‘[7] میں ہے :
[1] إبراہیم خلیل : إسرائیل و تلمودص: ۶۷۔