کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 523
اس شہراور اس مہینہ میں اس دن تک کے لیے ہے ؛ جس دن تم اپنے رب سے ملوگے۔‘‘[1]
اور ان کی بعض روایات سودی لین دین کے حرام ہونے پر بھی دلالت کرتی ہیں بلکہ ان کے ائمہ کی زبانی کئی ایک روایات میں سود خور کے لیے بہت سخت وعید آئی ہے۔
کلینی نے ابو عبد اللہ علیہ السلام سے روایت کیا ہے : آپ نے فرمایا:
’’ سود کا ایک درہم لینا ؛ محرم رشتوں سے ستر بار زنا کرنے کے برابر ہے۔‘‘[2]
اور عبید بن زرارہ سے روایت ہے : ابو عبد اللہ علیہ السلام کو ایک آدمی کے بارے میں خبر ملی کہ وہ سود کھاتا تھا، اور اسے ’’تھن کا دودھ پینا ‘‘نام دیتا تھا؛ تو آپ نے فرمایا:
’’ اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے اس پر غلبہ دے دیا، تو میں اسے قتل کردوں گا۔‘‘[3]
جیسے ہم نے یہودیوں پریہ الزام ثابت کیا ہے کہ ان کتابوں کی عبارات اور احکام میں تعارض ہے ؛ ایسے ہم رافضیوں پر بھی یہ الزام ثابت کرتے ہیں۔
یہ روایات جو کہ ان کی اہم ترین اور ثقہ کتابوں میں وارد ہوئی ہیں ؛یہ ان روایات سے ٹکراتی ہیں جو کہ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں ؛جن میں کسی بھی طریقہ سے اہل ِ سنت و الجماعت کا مال قبضہ کرنے کو جائز قرار دیا گیاہے۔ اور جن روایات میں رافضیوں کے لیے غیروں کے ساتھ سودی لین دین کو بھی جائز کہا ہے۔
اب ان میں سے کون سی روایات صحیح ہیں ؟ جو مسلمانوں کے مال کو مباح قرار دیتی ہیں ؟ اور شیعہ کے مخالفین سے سود لینے کو جائز کہتی ہیں ؟یا پھر یہ [مذکورہ ] بالا روایات جوان تمام چیزوں کوحرام کہتی ہیں ؟اس سوال کا جواب بھی رافضیوں سے ہی طلب کرتے ہیں۔
ان دلائل سے رافضیوں اور یہودیوں کے اس فاسد عقیدہ کا باطل ہونا قرآن و سنت کے دلائل اور خود ان کی کتابوں سے ظاہر ہوگیا جس عقیدہ کی روشنی میں وہ اپنے علاوہ باقی لوگوں کو کافر کہتے ہیں اور ان کے مال اور خون کو مباح قرار دیتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کے لیے ہی تعریف ہے، اور اسی کااحسان ہے جس عظیم ذات نے انعام او ر فضل فرمایا،اور حق کا اظہار کرنے اور باطل کی بیخ کنی کرنے کی توفیق دی تاکہ زندہ رہنے والا واضح دلائل کی روشنی میں زندہ رہے۔ اور جس نے ہلاک ہوناہو وہ بھی واضح اور کھلی راہ پر ہلاک ہو۔
****
[1] اصحاح ۲۴؛ فقرات ۱۴-۱۵۔
[2] اصحاح ۲۵ ؛ فقرات ۳۵- ۳۷۔
[3] فروع الکافی ۵/ ۱۲۴۔