کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 522
نہ کرے، او رتم پر گناہ نہ ہو۔‘‘[1]
اور ایسے ہی سودی لین دین کرنے کی ممانعت آئی ہے ؛ خواہ پردیسیوں کے ساتھ ہو، یا اہل وطن کے ساتھ۔ سفر لاویین میں آیا ہے :
’’ جب تیرا بھائی فقیر ہوجائے، اور اس کا ہاتھ تیری طرف دراز ہو، تو اس کی مدد کر۔ خواہ وہ اہل وطن ہو یا پردیسی ہو۔ سو وہ تیرے ساتھ ہی گزر بسر کرے گا، پس اس سے سود نہ لینا۔ اورنہ ہی فائدہ لینا بلکہ اپنے معبود سے ڈر ؛ سو تیرا بھائی تیرے ساتھ زندگی گزارے گا اور اسے اپنا چاندی سود پرنہ دینا، اور اپنا کھانا اسے فائدہ پر مت دینا۔‘‘[2]
سو ان نصوص میں یہودیوں پر رد ہے جو اپنے علاوہ باقی لوگوں کو مباح سمجھتے ہیں۔ اور جھوٹ گھڑ کر ان نصوص کواللہ اور ان انبیاء و مرسلین کی طرف منسوب کرتے ہیں جو کہ اللہ تعالیٰ کی شریعت مطہرہ میں ان کے لیے غیروں کے ساتھ سودی معاملات کرنے اوران کا مال باطل طریقہ سے کھانے کو مباح قرار دیتی ہیں۔ ہم تو ان پر ان کی کتابوں میں ہی نصوص کے تعارض کا الزام دیتے ہیں۔
یہ نصوص غریب پر ظلم کرنے ؛ اور اس کا مال ناجائز طریقہ سے لینے کو حرام کہتی ہیں۔ اور انہیں تمام لوگوں کے درمیان بغیر تفریق اور تعصب کے عدل کرنے کا حکم دیتی ہیں۔
جب کہ دوسری وہ روایات ہیں جو یہودیوں کے لیے باقی لوگوں کا مال باطل[کسی بھی نا جائز ] ذریعہ سے لینے ؛اور ان سے سودی لین دین کرنے کو جائز قرار دیتی ہیں، پھر ان کا جواب کیا ہے ؟
اور ایسے ہی رافضیوں کی کتابیں بھی ان کے اس عقیدہ کے فاسد ہونے پر دلالت کرتی ہیں جس میں وہ باقی مسلمانوں کے اموال کو مباح سمجھتے ہیں۔
کلینی نے ابو عبد اللہ علیہ السلام سے روایت کیا ہے : ’’ جب کسی انسان نے حرام ذریعہ سے مال کمایا، اور پھر حج کے لیے تلبیہ کہا؛ تو اسے آواز دی جاتی ہے :
’’ نہ ہی تیری حاضری قبول ہوئی اور نہ ہی تیرے لیے کوئی خوش بختی ہے۔‘‘[3]
اور اس موقع پر کلینی کے روایت کردہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبہ حجۃ الوداع سے دلیل پیش کرنا بہت ہی خوب ہوگا، جو کہ پہلے ہم پیش کررہے ہیں، اس کا ایک جز یہ ہے:
’’بے شک تمہارے خون اور تمہارے اموال تم پر ایسے ہی حرام ہیں جیسے تمہارے آج کے دن کی حرمت
[1] مسلم کتاب المساقاۃ / باب لعن آکل الربا و موکلہ ؛ ح: ۱۰۵۔
[2] اصحاح ۱۹؛ فقرات ۳۳-۳۴۔