کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 521
’’جو شخص قسم اٹھا کر کسی مسلمان کا حق مارتا ہے،اللہ تعالیٰ اس کے لیے جہنم کو واجب کردیتے ہیں اور اس پر جنت کو حرام کردیتے ہیں۔ ‘‘ ایک آدمی نے پوچھا : اے اللہ کے رسول ! اگر وہ کوئی معمولی چیز ہو؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اگرچہ اراک کی ٹہنی ہی کیوں نہ ہو۔‘‘ جب کہ سود کھانا حرام ہے۔ اور سود کھانے والا اور سود کھلانے والا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زبان پر ملعون ہیں۔ سیّدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے،آپ فرماتے ہیں : (( لعن رسول اللّٰه صلي اللّٰهُ عليه وسلم آکل الربا،وموکلہ۔)) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت کی :’’ سود کھانے والے، اور کھلانے والے پر۔‘‘[1] یہ احادیث لوگوں کا مال باطل طریقے سے کھانے کی حرمت ؛ او رسود کی حرمت پر صاف واضح دلیل ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بارے میں کسی چیز میں کچھ بھی فرق نہیں کیا ؛ [یعنی ] مسلمانوں اور غیر مسلموں کے اموال کے درمیان [کوئی فرق نہیں ] اور نہ ہی سود کو مسلمانوں یا غیر مسلموں کے ساتھ استعمال کرنے میں کوئی فرق کیا بلکہ اسے مسلمانوں اور غیر مسلموں سب کے حق میں حرام قراردیا۔ جو کہ یہودیوں اور رافضیوں کے مذہب [یعنی] مسلمانوں کے اموال کو مباح جاننے،اور اپنے مخالفین سے سود لینے کو حلال سمجھنے [کے عقیدہ ] کے باطل ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ خود ان لوگوں کی کتابیں اس فاسد عقیدہ کے باطل ہونے پر گواہی دیتی ہیں۔ حقیقت میں بعض یہودی اسفار میں غریب پر ظلم کرنے اور یہودی اور غیر یہودی کے ساتھ معاملات میں فرق کرنے کی ممانعت آئی ہے۔ سفر لاویین میں آیا ہے : ’’ جب کوئی پردیسی / اجنبی تمہاری سرزمین پر تمہارے پڑوس میں اترے تو اس پر ظلم نہ کرنا۔(اسکے ساتھ اسی طرح معاملہ کرنا) جس طرح تم میں سے کوئی وطن کا باشندہ ہے، تمہارے لیے تمہارے پاس اترنے والا پڑوسی بھی اسی طرح ہوگا اور تم اس سے ایسے ہی محبت کرنا جیسے اپنی ذات سے کرتے ہو۔ اس لیے کہ تم بھی مصر کی سرزمین پر پردیسی تھے۔‘‘[2] سفر تثنیہ میں غریب پر ظلم کرنے کی ممانعت؛ اور اسے اس دن کی یومیہ اجرت دینے کی ترغیب ہے، جس دن کام کرتے ہوئے سورج غروب ہوگیا ہو۔ [نصِ حکم یوں ہے]: ’’ مسکین مزدور پر ظلم نہ کرنا اور نہ ہی اپنے بھائیوں میں سے کسی فقیر پر، یا ان پردیسی لوگوں میں سے [کسی پر] جو تیری سرزمین اور تیرے دروازے پر نازل ہوئے ہیں۔ان پر سورج غروب ہونے سے پہلے انہیں ان کی اجرت دینا، اس لیے کہ وہ فقیر ہے، اسے اِس کام پر لگانے والا اس کا نفس ہے، تاکہ وہ تم پر بد دعا
[1] رواہ البخاری کتاب المظالم / باب الظلم ظلمات یوم القیامۃ ، ح: ۲۴۴۷۔ مسلم کتاب البر / باب تحریم الظلم ح: ۵۷۔ [2] مسلم کتاب الإیمان / باب وعید من اقتطع حق مسلم بیمین فاجرۃ بالنار ؛ ح: ۲۱۸۔