کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 520
﴿فَبِظُلْمٍ مِّنَ الَّذِیْنَ ہَادُوْا حَرَّمْنَا عَلَیْْہِمْ طَیِّبَاتٍ أُحِلَّتْ لَہُمْ وَبِصَدِّہِمْ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ کَثِیْرًا o وَأَخْذِہِمُ الرِّبَا وَقَدْ نُہُوْا عَنْہُ وَأَکْلِہِمْ أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَأَعْتَدْنَا لِلْکَافِرِیْنَ مِنْہُمْ عَذَابًا أَلِیْمًا ﴾ (النساء: ۱۶۰۔۱۶۱)
’’ تو ہم نے یہودیوں کے ظلموں کے سبب (بہت سی) پاکیزہ چیزیں جو ان کو حلال تھیں ان پر حرام کر دیں اور اس سبب سے بھی کہ وہ اکثر اللہ کے رستے سے (لوگوں کو) روکتے تھے۔ اور اس سبب سے بھی کہ باوجود منع کیے جانے کے سُود لیتے تھے اور اس سبب سے بھی کہ لوگوں کا مال ناحق کھاتے تھے اور ان میں سے جو کافر ہیں،ان کے لیے ہم نے درد ناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔‘‘
پس ان دو آیات میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان لوگوں کے لیے بہت سخت وعید ہے جو لوگوں کا مال ناحق طریقے سے کھاتے ہیں۔ اوریہ خبر ہے کہ جو کوئی اس شنیع فعل کا ارتکاب کرے گا، اس کے لیے دنیااور آخرت میں سخت عذاب ہے۔ ان دو آیات میں یہودیوں اور رافضیوں پر کھلا ہوا ردہے جو لوگوں کے اموال کو مباح جانتے ہیں اور ظلم و سرکشی کرتے ہوئے سود کوحلال قرار دیتے ہیں۔
رافضیوں کے لیے یہ بات بہت ہی مناسب تھی کہ وہ یہودسے نصیحت حاصل کریں ؛ اس کے بعد کے اللہ تعالیٰ نے ان کے جرائم کی خبر دی ؛ اور پھر ان کا اس دنیا کی زندگی میں جو انجام ہوا، جیسے رزق کی تنگی؛ اور پریشان کن زندگی ؛ اور اس کے ساتھ ہی آخرت کے جس دردناک عذاب سے اللہ تعالیٰ نے ڈرایا ہے ؛ یہ ان کے ان جرائم کا بدلہ ہے جو انہوں نے گھڑلیے تھے۔ اور چاہیے کہ وہ ہر طرح ان کی راہ پر چلنے سے بچ کر رہیں تاکہ یہ لوگ اس چیز میں نہ پڑیں جس میں یہود پڑگئے تھے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی لوگوں پر ظلم کرنے او ران کا مال باطل طریقوں سے کھانے سے کئی احادیث میں منع کیا ہے۔ ان میں سے ایک حدیث ہے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( إن الظلم ظلمات یوم القیامۃ۔))
’’بے شک ظلم روزِ قیامت اندھیرا ہی ہوگا۔‘‘[1]
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
((من اقتطع بحق امریء مسلم بیمینہ، أوجب اللّٰہ لہ النار، وحرَم علیہ الجنۃ۔‘‘ قال لہ رجل : وإن کان شئیاً یسیرًا یارسول اللّٰه ! قال: وان کان قضیبًا من أراک۔)) [2]
[1] الفروع من الکافی ۷/ ۲۷۳۔