کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 52
کے وصی ہیں۔ ‘‘ پھر کہنے لگا : ’’ محمد صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الأنبیا ء ہیں، اور علی رضی اللہ عنہ خاتم الأوصیاء ہیں۔ اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت کو نافذ نہ کرے۔ اور جو وصی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غالب آ گیاا ور اس امت کے امور اپنے ہاتھ میں لے لیے۔‘‘ پھر اس کے بعد ان سے کہنے لگا: ’’یقینا عثمان رضی اللہ عنہ نے خلافت پر ناحق قبضہ کیا ہے اور یہ (حضرت علی رضی اللہ عنہ ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصی ہیں۔‘‘ لوگو! اس معاملہ میں اٹھ کھڑے ہو ؛ اور حرکت میں آجاؤ۔ اور اپنے امراء (حکمرانوں ) پر کھلم کھلا طعن کرو۔اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا اظہار کرو، لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرو اور انہیں یہ معاملہ سمجھاؤ۔اس نے اپنے داعی روانہ کیے۔ اور جن لوگوں کوگمراہ کرنے میں کامیاب ہوگیا تھا ؛ ان سے خط و کتابت کے ذریعے رابطہ رکھا، اور خفیہ طور پر اپنی یہ دعوت جاری رکھی۔ یہاں تک کہ وہ لوگ کافی پھیل گئے ؛ اور وہ جو کچھ چاہتے تھے اس کا اظہار نہیں کرتے تھے‘ بلکہ اندر ہی اندر اسے چھپاتے ہے۔ یہاں تک کہ یہ خبریں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ تک پہنچیں ؛ انہوں نے مسلمانوں سے اس معاملے میں مشورہ کیا۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ مختلف شہروں کی خبریں معلوم کرنے کے لیے افراد روانہ کیے جائیں۔ سو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ایسے ہی کیا۔ جب یہ نمائندے واپس آئے اور انہوں نے رپورٹ دی کہ انہیں کوئی ایسی چیز محسوس نہیں ہوئی۔ نہ ہی بڑے -طبقہ کے - مسلمانوں نے اور نہ ہی عوام الناس نے کوئی ایسی خبردی ہے۔ اور امراء لوگوں کے درمیان عدل و انصاف سے کام لے رہے ہیں اور ان کی دیکھ بھال کر رہے ہیں۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ان شہروں کی طرف خطوط لکھے ؛ اور ان سے اس بات کا ذکر کیا جو خبریں ؛اور امراء پر طعن ان تک پہنچا تھا۔ ا ن خطوط میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد فرماتے ہیں : ’’میں ہر موسم حج میں اپنے عمال کو جمع کرتا ہوں اور جب سے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ میرے ہاتھ میں آیا ہے ؛ امت خاموش ہے (گویا کہ مجھے ان پر مسلط کردیا گیا ہے)نہ ہی مجھ تک کوئی طلب پہنچتی ہے، اور نہ ہی میرے عمال کے پا س ؛ مگر میں اس کی طلب پوری کرتا ہوں۔ میرا اور میرے عیال کا کوئی حق رعایا سے پہلے نہیں ہے مگر جو چیز ان کے لیے چھوڑ دی گئی ہو۔ اہل مدینہ نے میرے پاس شکایت پہنچائی ہے کہ کچھ لوگ گالیاں دیتے ہیں، اورکچھ دوسرے مارتے بھی ہیں۔ اے لوگو! جسے چھپ کر مارا گیا ہو، یاجسے چھپ کر گالی دی گئی ہو؛ اسے چاہیے کہ وہ موسم حج میں ہمارے پاس آئے۔ اور وہ اپنا حق لے لے، خواہ وہ حق مجھ پر ہو، یا میرے عمال پر ؛ یا پھر انہیں معاف کردو۔ بے