کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 518
نے بنی اسرائیل پر قتل ناحق کو حرام کیا تھا۔ اوراس امت پر بھی اس کو حرام کیا ہے سوائے حق کے۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس جرم سے خبر دار کیا ہے، اور اسے ہلاک کرنے والے گناہوں میں شمار کیاہے۔ ان نصوص میں یہودیوں اور رافضیوں کے جھوٹا ہونے کے دلائل ہیں، جنہوں نے معصوم اور بری لوگوں کے قتل کو مباح قرار دیا ؛ اوران کے حرام خون کا بہانا حلال سمجھا ؛ اوراس بات کا دعویٰ کرنے لگے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ امور ان کے لیے مباح کیے ہیں۔ وہ (یہودی اور رافضی) اپنے اس جھوٹ میں دو جرائم کے مرتکب ہوئے ہیں : ۱۔ قتل کرنے اورناحق خون بہانے کا جرم۔ ۲۔ [اللہ پر جھوٹ گھڑنے کا جرم ] کہ انہوں نے اپنے اس جرم کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا ہے کہ اللہ نے ان کے لیے یہ قتل کرنا مباح ٹھہرایا ہے۔ کتاب و سنت کے دلائل پر مستزاد وہ واضح اور کھلے ہوئے دلائلی ہیں جوکسی جی کے قتل کی حرمت ؛اور خون بہانے کی ممانعت پر دلالت کرتے ہیں، اور خود ان لوگوں کی کتابوں میں موجود ہیں۔ یہودیوں کی کتابوں میں ان دس وصیتوں کے ضمن میں آیا ہے جواللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو وصیت کی ہیں ؛ ان میں ہے : ’’کسی نفس کو قتل نہ کرنا ؛ اور نہ ہی زنا کرنا، اور نہ ہی چوری کرنا۔‘‘[1] جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو غرباء لوگوں پر شفقت کرنے، اور ان پر تنگی نہ کرنے کی وصیت کی ہے۔ اور ان لوگوں کو ڈرایا ہے جو ان کے ساتھ براسلوک کریں۔سفر الخروج میں آیا ہے: ’’ کسی غریب ’’غیر یہودی‘‘ کو مجبور نہ کرنا، اور نہ ہی اس پر تنگی کرنا ؛ اس لیے کہ تم بھی مصر کی سر زمین پر اجنبی تھے؛ اور کسی بیوہ اور یتیم کے ساتھ برا سلوک نہ کرنا۔ اگر تم اس کے ساتھ برا سلوک کروگے ؛ تو بے شک جب بھی وہ میری بارگاہ میں فریاد کرے گا میں اس کی فریاد کو سنوں گا ؛ تو میرا غصہ بھڑک اٹھے گا، اور میں تمہیں تلوار سے قتل کردوں گا تو تمہاری عورتیں بیوہ ہو جائیں گی اور تمہارے بچے یتیم ہوجائیں گے۔‘‘ [2] [رافضی اور قتل ِ ناحق کی حرمت]: ’’ رافضیوں کی کتابوں میں بہت ساری روایات آئی ہیں جو قتل اور خونریزی کی حرمت پر دلالت کرتی ہیں، ان میں سے : کلینی نے الکافی میں روایت کیاہے : ’’ بے شک جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مناسک حج ادا کر لیے تو’’منیٰ‘‘میں کھڑے ہوئے، اورفرمایا : ’’ اے لو گو! جومیں تم سے کہہ رہا ہوں،اسے سنو؛ اور مجھ سے اس کی سمجھ حاصل کرو۔ اس لیے کہ میں نہیں سمجھتا کہ اس سال کے بعد میں تمہیں اس جگہ مل سکوں۔ پھر فرمایا: کون سا دن بڑی حرمت والا ہے ؟کہنے
[1] رواہ البخاری کتاب الوصایا؛ باب قول اللّٰه تعالیٰ ﴿إن الذین یأکلون أموال الیتامی ظلما ﴾۔ ؛ ح: ۲۷۶۶۔ مسلم، کتاب الإیمان ؛ باب: بیان الکبائر وأبرھا؛ ح: ۱۴۵۔ [2] رواہ البخاری کتاب الدیات، باب قولہ تعالی: ﴿ومن یقتل مؤمنا متعمدًا فجزاؤہ جہنم﴾۔