کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 517
﴿وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلَّا بِالْحَقِّ ذٰلِکُمْ وَصَّاکُمْ بِہٖ لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُونَ﴾ (الانعام: ۱۵۱) ’’ جس کے قتل کو اللہ نے حرام کر دیا ہے قتل نہ کرنا مگر جائز طور پر (یعنی جس کا شریعت حکم دے) ان باتوں کا وہ تمہیں ارشاد فرماتا ہے تاکہ تم سمجھو۔‘‘ نیز اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ اس نے بنی اسرائیل پر ناحق قتل کو حرام کیا تھا؛اسکا فرمان ہے: ﴿مِنْ اَجْلِ ذٰلِکَ ث کَتَبْنَا عَلٰی بَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ اَنَّہٗ مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا وَ مَنْ اَحْیَاہَا فَکَاَنَّمَآ اَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعًا وَ لَقَدْ جَآئَ تْہُمْ رُسُلُنَا بِالْبَبیِّنٰتِ ثُمَّ اِنَّ کَثِیْرًا مِّنْہُمْ بَعْدَ ذٰلِکَ فِی الْاَرْضِ لَمُسْرِفُوْنَ ﴾ (المائدہ: ۳۲) ’’ اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر یہ لکھ دیا کہ جو شخص کسی کو بغیر اس کے کہ وہ کسی کا قاتل ہو یا زمین میں فساد مچانے والا ہواورکسی کو قتل کر ڈالے تو گویا اس نے تمام لوگوں کو قتل کر دیا، اور جو شخص کسی ایک کی جان بچائے اس نے گویا تمام لوگوں کو زندہ کر دیا اور ان کے پاس ہمارے بہت سے رسول ظاہر دلیلیں لے کر آئے لیکن پھر اس کے بعد بھی ان میں اکثر لوگ زمین میں ظلم و زیادتی اور زبردستی کرنے والے ہی رہے۔‘‘ اور ایسے ہی احادیث بھی کسی جی کونا حق قتل کرنے کی حرمت پر دلالت کرتی ہیں۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کبیرہ گناہوں میں شمار کیاہے۔ سیّدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’سات ہلاکت خیز چیزوں سے بچو۔ [صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین ] کہنے لگے : یارسول اللہ! وہ کون سی چیزیں ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہرانا، جادو، اور اس نفس کو قتل کرنا جس کو اللہ تعالیٰ نے حرمت دی ہے، مگر حق کے ساتھ؛ اور سود کھانا، اور یتیم کا مال کھانا؛ اور جنگ کے دن پیٹھ پھیر کر بھاگ جانا، اور پاک دامن غافل عورتوں پر تہمت لگانا۔‘‘[1] اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی فرمان ہے : ’’ انسان اس وقت تک وسعت میں رہتا ہے جب تک حرام خون نہ بہائے۔‘‘[2] قرآن و سنت کی نصوص حرمت والے نفس کے قتل کے حرام ہونے پر گواہ ہیں۔ سواللہ تعالیٰ نے خبردی ہے کہ اس
[1] صحیح البخاری ؛ کتاب الأدب ؛ باب من أکفر أخاہ بغیر تاویل ؛ ح: ۶۱۰۳۔دو میں سے کسی ایک ساتھ واپس لوٹنے سے مراد یہ ہے کہ : یا تووہ انسان واقعی کافر ہوگا، اور اس کی بات حق اورصواب ہوگی اور یہ حق کے ساتھ لوٹے گا۔ یا پھر وہ سامنے والامسلمان ہوگا،اور یہ بلا وجہ او ربغیر کسی تاویل کے اسے کافر کہہ رہا ہے تو اس صورت میں یہ خود کافر ہوجائے گا اور کفر کے ساتھ واپس لوٹے گا۔ [2] صحیح مسلم، کتاب الإیمان، باب: بیان حال من قال لأخیہ المسلم یا کافر، ح: ۱۱۱۔ [3] الصارم المسلول علی شاتم الرسول: ۵۸۶۔