کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 516
سویہودی گمان کرتے ہیں کہ ان کے علاوہ باقی تمام لوگ کفار اور بت پرست ہیں۔ اور رافضی اپنے علاوہ تمام مسلمانوں کو کافر کہتے ہیں۔
مسلمانوں کو کافر کہنا کبیرہ گناہوں میں سے بڑا اور قبیح گناہ ہے۔ بسا اوقات یہ خود ملت اسلام سے خارج کرنے والا کفر ہوتا ہے؛ اگر یہ بغیر کسی تاویل کے ہو،جیسا کہ صحیح بخاری میں روایت کردہ حدیث میں ثابت ہے۔
سیّدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: ’’بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’ جب کوئی انسان اپنے بھائی کو کافر کہتا ہے، تووہ کسی ایک کے ساتھ واپس لوٹتا ہے۔‘‘[1]
صحیح مسلم میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’ جب کوئی انسان اپنے بھائی پر کفر کا فتویٰ لگاتا ہے، تووہ کسی ایک کے ساتھ واپس لوٹتا ہے۔‘‘[2]
یہ تو اس کی سزا ہے جو مسلمانوں میں سے کسی ایک آدمی کو کافر کہے تو اس آدمی کا کیا حال ہوگا جو سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ وحضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اورسوائے چند ایک کے باقی سارے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین اور اکثر امہات المومنین کو کافر کہے۔ اوراس امت کے سابقہ سلف ِ صالحین کوکافر کہے اور اس کا یہ عقیدہ ہو کہ یہ سلف صالحین یہود و نصاریٰ اور مجوس و مشرکین سے بڑے کافر تھے۔ توپھر اس میں کوئی شک نہیں رہتا ہے کہ جوان لوگوں کو کافر کہتا ہے، اس کا یہ کافر کہنا ہی خود اس کے سب سے بڑے کافر ہونے کی دلیل ہے۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اپنی کتاب ’’الصارم المسلول‘‘ کے آخر میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو گالی دینے کے حکم کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’جس نے یہ سمجھ کر جائز سمجھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سوائے چند ایک لوگوں کے ؛جن کی تعداد دس سے کچھ زیادہ نہیں بنتی؛ باقی سارے صحابہ مرتد ہوگئے تھے، یا ان کے عام لوگ فسق کرنے لگ گئے تھے۔ ایسے[کہنے والے ] انسان کے کفر میں بھی کوئی شک نہیں۔ اس لیے کہ قرآن میں کئی جگہ پر بیان ہونے والی نصوص [جن میں اللہ کی طرف سے ان صحابہ کی ] : تعریف اور ان پراللہ کی رضامندی کو جھٹلارہا ہے۔ [ پس ایسے شخص کے کافر ہونے میں کوئی شک نہیں ]بلکہ جو کوئی بھی اس جیسے کے کفر میں شک کرے؛ اس کا کافر ہونا بھی متعین ہے۔‘‘[3]
رہا یہودیوں اور رافضیوں کا اپنے مخالفین کا خون مباح سمجھنا ؛ تویہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے لیے نری رسوائی ہے ؛اس لیے کہ تمام امتیں قتل ِ نا حق کی حرمت پر متفق ہیں [اس میں کوئی اختلاف نہیں ] اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :