کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 515
لوگ بھی اسی طرح ایمان لے آئیں جس طرح تم ایمان لے آئے ہو تو ہدایت یافتہ ہو جائیں اور اگر منہ پھیر لیں تو وہ صریح مخالف ہیں اورعنقریب اُن سے اللہ آپ کو کفایت کرے گا؛ور وہ سننے والا (اور) جاننے والا ہے۔‘‘
ان آیات میں اللہ تعالیٰ یہود و نصاریٰ میں ہر ایک گروہ کے ہدایت صرف اپنے اپنے دین کی اتباع تک محدود کرنے کا دعویٰ ذکر کیا ہے۔ اورپھر اللہ تعالیٰ نے ان کے ان بودے دعووں پرردّ کیا ہے ؛ اور فرمایا ہے:
﴿قُلْ بَلْ مِلَّۃَ إِبْرَاہِیْمَ حَنِیْفاً وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ﴾
’’ آپ فرمادیں :(نہیں )بلکہ صحیح راہ پرملت ِابراہیم والے ہیں ؛ جو ایک اللہ کے عبادت گزار تھے اور مشرکوں میں سے نہ تھے۔‘‘
یعنی ہدایت تمہارے طریقہ کی پیروی کرنے میں نہیں ہے بلکہ ابراہیم علیہ السلام کی ملت میں ہے، جن کی صفت یہ تھی کہ آپ یکسو تھے (یعنی دین پر استقامت کے ساتھ چلتے تھے) اورمشرکین میں سے نہ تھے۔
پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے بیان کیا کہ توحید کی جو دعوت ابراہیم علیہ السلام اور دوسرے انبیاء علیہم السلام لے کر آئے، اس میں کوئی فرق نہیں ہے۔ پس جو کوئی ان انبیاء کرام علیہم السلام کی لائی ہوئی دعوت پر ایمان لے آیا اس نے ہدایت پالی۔ اور جس نے اعراض کیا اور منہ موڑ لیا، وہ گمراہ ہے ہدایت یافتہ نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ہدایت کو کسی خاص گروہ تک محدود نہیں کیا بلکہ ان کے درمیان بغیر کسی تفریق کے، رسولوں کی اتباع اور ان کے لائے ہوئے پیغام پر ایمان لانے کو ہدایت کی راہ بنادیا ؛ اور جو کوئی اس پر چلاسو وہی ہدایت یافتہ ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی طرح ہے:
﴿اِنَّ الَّذِیْنَ آمَنُوْا وَالَّذِیْنَ ہَادُوْا وَالنَّصَارَیٰ وَالصَّابِئِیْنَ مَنْ آمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحاً فَلَہُمْ أَجْرُہُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلَا ہُمْ یَحْزَنُوْنَ ﴾ (البقرہ: ۶۲)
’’ جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست (یعنی کوئی شخص کسی قوم یا مذہب کا ہو) جو اللہ اور روزِ قیامت پر ایمان لائے گا اور نیک عمل کرے گا تو ایسے لوگوں کو ان کے (اعمال کا) صلہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ملے گا اور (قیامت کے دن) نہ ان کو کسی طرح کا خوف ہو گا اور نہ وہ غمناک ہوں گے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے ان گروہوں میں سے کسی ایک گروہ کے ساتھ ایمان کو خاص اور محدود نہیں کیا بلکہ اس بات کی خبر دی ہے کہ جو کوئی بھی ایمان لائے، اورپھر اس کے بعد نیک عمل کرتا رہے۔ تو وہ ان مومنین میں سے ہوگاجن سے اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے کہ ان پر کوئی خوف نہیں ہوگا، اور وہ رنجیدہ بھی نہیں ہوں گے۔ ان دونوں آیتوں میں یہودیوں اور رافضیوں پر رد ہے جواپنے تمام مخالفین پر کفر کافتویٰ لگاتے ہیں۔ اورایمان اور ہدایت کو اپنی ذات تک محدود سمجھتے ہیں۔