کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 508
﴿عَامِلَۃٌ نَّاصِبَۃٌ o تَصْلٰی نَارًا حَامِیَۃً ﴾ (الغاشیۃ: ۳۔۴) ’’ سخت محنت کرنے والے تھکے ماندے۔ دہکتی آگ میں داخل ہوں گے۔‘‘ اور ’’محاسن ‘‘میں علی الخدمی سے روایت ہے ؛ ابو عبد اللہ علیہ السلام نے فرمایا: ’’بے شک پڑوسی پڑوسی کی شفاعت کرے گا،اور دوست دوست کی ؛ اور اگر اللہ کے مقرب فرشتے، انبیاء اور مرسلین ناصبی کی شفاعت کریں تو ان کی شفاعت قبول نہیں کی جائے گی۔‘‘[1] یہ رافضیوں کا عقیدہ ہے۔ سو ان کا اعتقاد ہے کہ اہل سنت و الجماعت ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے، اس سے نہیں نکالے جائیں گے۔ اور اگر ان کے بارے میں انبیاء،مرسلین اور ملائکہ مقربین بھی شفاعت کریں گے تو ان کی شفاعت ہر گز قبول نہیں کی جائے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ رافضیوں کا عقیدہ ہے کہ جنت میں داخل ہونا اعمال کے حساب پر نہیں ہوگا، پس شیعہ جنت میں ہی جائیں گے، خواہ وہ گنہگار ہی کیوں نہ ہوں۔ اور اہل سنت جہنم میں جائیں گے، خواہ وہ نیکو کار ہی کیوں نہ ہوں۔ اس عقیدہ کی وضاحت اس روایت میں آئی ہے جو عیاشی نے اپنی تفسیر میں ابو عبد اللہ سے نقل کی ہے ؛ اس میں ہے : ’’ امیر المومنین علی علیہ السلام کے دشمن ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہیں گے ؛ خواہ وہ اپنے ادیان میں عبادت، زہد اور ورع[تقویٰ] کے اعلیٰ مقام پر کیوں نہ ہوں۔ اور علی علیہ السلام پر ایمان رکھنے والے ہمیشہ کے لیے جنت میں رہیں گے، اگرچہ وہ اپنے اعمال میں اس کا الٹ گنہگار ہی کیوں نہ ہوں۔‘‘[2] اورحضرت علی رضی اللہ عنہ کے دشمن ان کے نزدیک وہ تمام لوگ ہیں جو صحابہ میں سے کسی دوسرے کو حضرت علی رضی اللہ عنہ پر ترجیح دیں۔ اور جناب حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کی امامت کو صحیح سمجھیں۔ رافضی اس اعتبار سے اہل سنت کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دشمن سمجھ کر ان پر ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہنے کا حکم لگاتے ہیں۔ رافضی اپنے ان باطل دعووں میں سرکشی کرتے ہوئے اس سے بھی آگے بڑھتے ہیں اور یہ گمان کرنے لگتے ہیں کہ ان کے اور ان کے ائمہ کے علاوہ باقی تمام لوگ جہنم میں جائیں گے۔ کافی میں روایت ہے ابو عبداللہ علیہ السلام نے کہا : ’’ اور ہمارے شیعہ کی روحیں ہماری مٹی سے پیدا کی گئیں ؛ اور ان کے بدن اس [مٹی ]کے نیچے خزانے میں رکھی ہوئی پوشیدہ مٹی سے پیدا کیے گئے اور جس مٹی سے انہیں پیدا کیا گیا، اللہ تعالیٰ نے کسی کا کوئی نصیب نہیں رکھا سوائے انبیاء کے، اس لیے صرف ہم اور وہ انسان بنے، اور باقی تمام بیوقوف لوگ آگ کے لیے ہیں،اورانہیں اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔‘‘[3]
[1] فروع الکافی ۵/ ۱۴۷۔ من لا یحضرہ الفقیہ ۳/ ۱۷۹۔ الاستبصار ۳/ ۷۰۔ [2] من لا یحضرہ الفقیہ ۳/ ۱۸۰۔ [3] الوشیعۃ في نقد عقائد الشیعۃ ص:۵۷۔ [4] ثواب الأعمال و عقاب الأعمال ص: ۲۱۵۔ بحار الأنوار ۲۷/ ۲۳۵۔