کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 507
یہ میاں خمینی ہے جو رافضیوں کو اہل سنت کا مال مباح ہونے کا اور جہاں بھی پایا جائے، اور جیسے بھی ممکن ہو، ہتھیا لینے کا فتویٰ دیتاہے۔ اور اس کی اس بات کے ان کے معاصر علماء میں سے کسی ایک نے بھی مخالفت نہیں کی۔ جواہل سنت و الجماعت کے متعلق ان کے امام خمینی کے کھلے لفظوں میں ذکر کردہ اس فتویٰ پر اجماع کی دلیل ہے۔بس باقی علماء نے تقیہ پر عمل کرتے ہوئے خاموشی اختیار کرلی؛ ورنہ حقیقت میں وہ اس کے ہم نوا اور موافق ہیں۔
جیسے یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ مخالفین سے سود لینا جائز ہے، ایسے رافضیوں کا بھی عقیدہ ہے کہ ان کے مخالفین اہل ِ ذمہ اور مسلمانوں سے سود لینا جائز ہے۔ ’’کافی ‘‘اور ’’ من لا یحضرہ الفقیہ‘‘ اور ’’الاستبصار‘‘ میں آیا ہے ؛ جسے انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کیا ہے، کہ آپ نے فرمایا:
’’ہمارے اور اہل حرب کے درمیان کوئی سود نہیں، ہم ان سے ایک درہم کے بدلے ہزاردرہم لیں گے۔ ہم ان سے لیں گے،ان کو دیں گے نہیں۔‘‘[1]
اور ’’من لا یحضرہ الفقیہ‘‘ میں صادق سے روایت ہے :
’’ مسلمان اور ذمی کے درمیان کو ئی سود نہیں ہے۔ اور نہ ہی عورت اور اس کے شوہر کے مابین کوئی سود ہے۔‘‘[2]
موسیٰ جار اللہ نے وافی سے اس کا قول نقل کیا ہے :
’’شیعہ اور ذمی کے درمیان اور شیعہ اور ناصبی کے درمیان کوئی سود نہیں ہے۔‘‘[3]
پس رافضی اپنے ہر مخالف سے سود لینا جائز قرار دیتے ہیں، جیسے کہ ان کی روایات میں واضح احکام موجود ہیں۔ جہاں تک اہلِ سنت والجماعت کی آخرت کی زندگی کا تعلق ہے،تو رافضیوں کا یہ عقیدہ ہے کہ مسلمانوں گروہوں میں سے جو کوئی بھی عقیدہ میں ان کی مخالفت کریں گے وہ ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ اور وہ خواہ جتنی بھی عبادت و ریاضت کرلیں ؛انہیں قیامت کے دن اللہ کے عذاب سے نجات نہیں دلاسکے گی۔ صدوق نے ’’عقاب الأعمال ‘‘ میں صادق سے روایت کیا ہے؛ اس نے کہا ہے :
’’ ہم اہل ِ بیت سے نصب [دشمنی ]رکھنے والے پر کوئی حرج نہیں ہے کہ نماز نہ پڑھے یا روز ہ نہ رکھے،یا زنا کرے یا چوری ؛ بے شک آخر کار وہ آگ میں ہوگا۔ہاں بے شک وہ آگ میں ہوگا۔‘‘[4]
اور ابان بن تغلب سے روایت ہے ابو عبد اللہ علیہ السلام نے فرمایا: ’’ہرناصبی اگرچہ وہ عبادت و ریاضت ہی کیوں نہ کرے، مگر آخر کار اس کا انجام یہ آیت ہے :
[1] الأنوار النعمانیۃ ۲/ ۳۰۷-۳۰۸۔
[2] الأنوار النعمانیۃ ۲/ ۳۰۷-۳۰۸۔