کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 506
’’کہہ دو کہ میں اس کا تم سے صِلہ نہیں مانگتا مگر (تم کو) قرابت کی محبت۔‘‘ پس ان لوگوں نے ایسی چیز کا انکار کیا جس کا دین میں ضروری ہونا معلوم شدہ ہے۔ رہا بعض روایات میں ان پر اسلام کا اطلاق ؛ وہ تو صرف تشبیہ اور مجاز کی مثال ہے۔ اور تقیہ کا ایک پہلو ہے جو ایسے احکام سے منسلک ہوتا ہے۔ اور بعض روایا ت میں ہے، الرشید کا وزیر علی بن یقطین اپنے مخالفین کی ایک جماعت کو قید خانے میں جمع کیا؛ وہ (علی ابن یقطین) خاص شیعوں میں سے تھا۔اس نے اپنے لڑکوں کو حکم دیا انہوں نے قیدیوں پر قید خانے کی چھت گرادی، جس سے ساری قیدی مر گئے ؛ جن کی تعداد پانچ سو کے قریب تھی۔ پھر اس نے ان کے خون سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہا تواس نے ایک آدمی امام کاظم علیہ السلام کے پاس بھیجا۔ توانہوں نے اس کواپنے جواب میں لکھا: ’’ اگر توان کوقتل کرنے سے پہلے میرے پاس آیا ہوتا؛ توان کے خون میں سے کچھ بھی تجھ پر نہ ہوتا، اور اس لیے کہ تومیرے پاس نہیں آیا، ان میں سے ہر آدمی کے بدلے جن کو تو نے قتل کیاہے ایک مینڈھا کفارہ ادا کرو۔ اور مینڈھا ان سے بہتر ہے۔ پس ان کی اس گراں قدر دیت کو دیکھئے جوا ن کے چھوٹے بھائی’’ کتے‘‘ کی دیت کے برابر بھی نہیں ؛ اس لیے کہ کتے کی دیت بیس درہم ہے ؛اورنہ ہی ان کے بڑے بھائی ؛ یعنی یہودی اورمجوسی کی دیت کے بر ابر ہے، اس لیے کہ ان کی دیت آٹھ سو درہم ہے؛ اورآخرت میں ان کا حال زیادہ برا اور گھناؤنا ہے۔‘‘[1] رافضیوں کا اہلِ سنت و الجماعت کے متعلق یہ نظریہ ہے، جسے الجزائری نے تقیہ کا وہ پردہ چاک کرنے کے بعد پوری جرأت کے ساتھ نقل کیا ہے جس کی وجہ سے ان کے بہت سارے علماء ایسے کھل کر نہیں کہہ سکتے جتنی صراحت کے ساتھ اس نے کہا ہے۔ ورنہ یہ تو ان کاعقیدہ ہے۔اہل سنت و الجماعت کے متعلق خصوصاً اور باقی مسلمانوں کے متعلق عمومًا یہ نظریہ ہے کہ شیعہ ان کے مال اور خون کو مباح سمجھتے ہیں۔اور ان کانظریہ ہے کہ ان کوقتل کرنا یہودی اور مجوسی کے قتل سے بھی کم ہے، بلکہ کتا مارنے سے بھی کم ہے۔جیساکہ حسدوبغض سے بھرے ہوئے اس رافضی نے واضح الفاظ میں کہا ہے۔ آج کے رافضی بھی اسی عقیدہ پر ہیں۔ ان کا معاصر امام اور حجت اللہ العظمی آیت اللہ خمینی اپنی کتاب ’’تحریر الوسیلہ‘‘ میں ’’خمس‘‘ کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہتا ہے: ’’اور زیادہ قوی یہ ہے کہ ناصبی کو ان سے غنیمت حاصل کرنے، اور اس سے خمس متعلق ہونے (کے احکام میں ) اہل حرب سے ملایا جائے؛بلکہ ظاہر [مذہب میں ] اس کا مال لے لینے کا جواز ہے، جہاں بھی پایا جائے اور جس طرح بھی ممکن ہو؛ اور اس سے خمس کے اخراج کا واجب ہوناہے۔‘‘[2]
[1] بحار الأنوار ۲۷/ ۲۳۱۔