کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 505
رکھے کہ اس پر دیوار گرادے، یا اسے پانی میں غرق کردے تاکہ کوئی تجھ پر گواہی نہ دے، تو ایسا کر گزرے۔ میں نے کہا : اس کے مال کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے : ’’ جب بھی اس پر قدرت پائے اسے اٹھالے / یا ختم کردے۔‘‘[1] یہ روایات اہل سنت و الجماعت کا خون اور مال مباح ہونے پر دلالت کرتی ہیں بلکہ ان کوایسے طریقہ سے قتل کرنے کی رہنمائی کی گئی ہے کہ قاتل پر قتل کا الزام یا ثبوت باقی نہ رہے ؛ یا ان پر دیوار گرا دی جائے، یا پھر انہیں پانی میں غرق کردیا جائے ؛ جیسے کہ یہودیوں کا اپنے مخالفین کے ساتھ طریقۂ کار ہے۔ نعمت اللہ الجزائری اہل سنت والجماعت کوقتل کرنے کے جواز اور ان کا مال مباح ہونے کی صراحت کرتا ہے ؛اوراپنے علماء کے نزدیک ناصبی کا معنی مقصود بیان کرنے کے بعد کہتا ہے : ’’ دوم : ان کو قتل کرنے کے جواز اور ان کا مال مباح ہونے کے بیان میں : یقیناً میں نے جانا ہے کہ ہمارے اکثر علماء نے ابواب طہارات اور نجاسات میں ناصبی کاوہ خاص معنی بیان کیا ہے۔ اور ان کے ہاں اس کا حکم یہ ہے : ’’ وہ اپنے اکثر احکام میں حربی کافر کی طرح ہے اور جو ہم نے اس کی تفسیر بیان کی ہے، تواس کا حکم شامل / عام ہوگا، جیسا کہ معلوم ہے۔ اورپھر شیخ الطائفہ (نور اللہ مرقدہ) [بنیرانِ جہنم ] نے ’’کتاب التہذیب‘‘ کے باب ’’الخمس و الغنائم‘‘ میں صحیح سند سے صادق علیہ السلام سے روایت کیا ہے، انہوں نے کہا ہے: ’’ ناصبی کا مال جہاں کہیں بھی پاؤ، اسے لے لو، اور اس کا خمس ہمارے پاس بھیج دو۔‘‘ ابن ادریس نے کہا ہے : ’’ ان دونوں حدیثوں میں ناصبی کا معنی پیش جنگ (اہل حرب ) کا ہے، اس لیے کہ یہ مسلمانوں پر جنگ مسلط کرتے ہیں اگر ایسانہ ہوتوکسی مسلمان کا،یا کسی ذمی کا مال لینا کسی بھی طرح جائز نہیں ہے۔‘‘ اس معاملہ میں غور و فکر کے لیے بڑا وسیع میدان ہے: پہلی بات یہ ہے : ناصبی کا اطلاق حقیقت میں غیر ِ اہل حرب پر ہونے لگا ہے۔ اور اگر یہی مراد ہوتے تو زیادہ بہتر ہوتا کہ تقیہ کے الفاظ میں ان کے متعلق بیان کیا جاتا ہے لیکن امام علیہ السلام کاارادہ یہ تھا کہ حکم ِواقعی کو بیان کریں جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں۔ [امام کا ] یہ کہنا : ’’کسی مسلمان یا ذمی کا مال لینا جائز نہیں ہے، یہ بات تو مسلَّمہ ہے، مگر ان کا اسلام کہاں ہے؟ انہوں نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت کوچھوڑ دیا، اللہ کی محکم کتاب میں جن کی محبت کا انہیں حکم دیا گیا تھا؛ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں : ﴿قُل لَّا أَسْأَلُکُمْ عَلَیْہِ أَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِی الْقُرْبَی﴾ (الشوری:۲۳)
[1] الصراط المستقیم إلی مستحقی التقدیم ۳/ ۲۲۳۔ [2] تحریر الوسیلہ ۲/ ۳۳۳۔ [3] تحریر الوسیلہ۱/ ۱۰۷۔