کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 504
وہ اپنے اس قول پر ائمہ معصومین سے کئی روایات نقل کرتا ہے جن سے اس کے مذہب کی تائیدہوتی ہے۔ان میں سے ایک صدوق کی روایت ہے، جو اس بات پر منصوص ہے کہ ناصبی وہ ہے جو شیعہ سے دشمنی رکھے؛ نہ کہ اہل بیت سے۔ اور وہ اپنے قول پر اس [مقولہ ]سے بھی گواہی پیش کرتا ہے کہ ناصبیوں سے مراد ان کے ہاں سنی ہیں،اس لیے کہ ان کے علماء حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر ناصبی [لقب] کا اطلاق کرتے ہیں۔‘‘
ایسے ہی ان سے لفظ ِ ناصبی کا اطلاق حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ پر بھی منقول ہے۔ نویں صدی ہجری کا مشہور شیعہ عالم نباطی امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں یوں کہتا ہے :
’’ پستان بیچنے والی کی اولاد جاہل، بہت بڑا ناصبی تھا۔‘‘[1]
اس نے یہ بھی کہا ہے کہ :وہ یہ عبارت ’’کشی‘‘ سے نقل کررہا ہے۔
اس سے واضح ہوگیا ہے کہ نواصب سے ان کے علماء اور متقدمین ائمہ کے ہاں مراد اہل سنت والجماعت ہیں جب کہ معاصرین بھی اس معنی میں ان کے موافق ہیں۔ خمینی اپنی کتابوں میں خوارج اور نواصب کے درمیان فرق بیان کرتا ہے، جو اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے نزدیک خوارج ایک علیحدہ قوم ہیں اور نواصب ایک علیحدہ قوم ہیں، خمینی تحریر الوسیلہ میں وراثت کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہتا ہے (یہ عبارت ہم پہلے ہی نقل کر چکے ہیں۔ )
’’ اور خوارج اورنواصب وہ ہیں جو ضروریات دین میں سے کسی ایک ضرورت کا انکار کریں۔‘‘[2]
اسی کتاب میں ایک دوسرے مقام پر کہتا ہے :
’’اور خوارج اور نواصب ان پر اللہ کی لعنت ہو،یہ دونوں پلید ہیں، بغیر کسی توقف کے۔‘‘[3]
مذکورہ بحث سے رافضیوں کے ہاں کلمہ ’’نواصب‘‘ کا حقیقی معنی واضح ہوگیا ہے کہ نواصب سے ان کے ہاں مقصود اہل سنت و الجماعت ہیں۔ جس پر ان کی قدیم و جدید کتابوں کی نصوص دلالت کرتی ہیں۔ جب کہ رافضیوں کا ان کے خون اورمال کو مباح جاننے کاموقف / عقیدہ [واضح ہے کہ] وہ مسلمانوں کے خون اور مال کومباح جانتے ہیں ؛ خاص کر اہل سنت و الجماعت کا خون اور مال بلکہ ان کی کتابوں میں ایسی روایات موجود ہیں جن میں اہل سنت والجماعت جہاں کہیں بھی پائے جائیں ؛ ان کوقتل کرنے اور ان کا مال ہتھیالینے کی ترغیب وارد ہوئی ہے۔
مجلسی نے بحار الأنوار میں اپنی سند سے ابن فرقد سے روایت کیا ہے : وہ کہتا ہے:
’’ میں نے ابوعبد اللہ علیہ السلام سے کہا: ناصبی کوقتل کرنے کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں ؟تو انہوں نے کہا : ’’اس کا خون حلال ہے ؛ [اور اس کا قتل کرنا ] تیرے لیے تقویٰ کا باعث ہے۔ اگر تو اس بات پر قدرت
[1] معانی الأخبار ص: ۳۶۵۔ عقاب الأعمال ص: ۲۴۷۔ بحار الأنوار ۲۷/ ۲۳۳۔
[2] الأنوار النعمانیۃ ۲/ ۳۰۶-۳۰۷۔