کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 503
[پھر نتیجہ میں ] یہ مذہب اختیار کیا ہے کہ ناصبی وہ ہے جو اہل بیت علیہم السلام کے شیعہ سے عداوت رکھے؛ اور انہیں کھلم کھلا برا بھلا کہے۔ جیسا کہ اس زمانے میں ہر جگہ پر ہمارے اکثر مخالفین کا حال ہے۔ اس بنا پر ناصبیت سے کوئی بھی خارج نہیں ہوسکتا، ما سوائے ان کے کمزور لوگوں کے، اور مقلدین اور بیوقوفوں اور عورتوں کے۔‘‘
یہی معنی زیادہ راجح ہے، اور اس پر ’’العلل و الشرائع ‘‘ میں صدوق رحمہ اللہ کی نقل کردہ وہ روایت دلالت کرتی ہے جسے قوی سند کے ساتھ صادق علیہ السلام سے روایت کیا گیا ہے؛ فرمایا:
’’ ناصبی وہ نہیں ہے جوہم اہل بیت سے دشمنی رکھے ؛ اس لیے کہ آپ کسی آدمی کو یہ کہتا نہیں پائیں گے کہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آل محمدسے بغض رکھتا ہوں لیکن ناصبی وہ ہے جو تم لوگوں سے دشمنی رکھے، اوروہ جانتا ہوکہ تم ہم سے دوستی رکھتے ہو؛ اور ہمارے شیعہ میں سے ہو۔‘‘[1]
اور اس معنی میں اخبار[روایات ] بہت زیادہ ہیں۔
اور ناصبیوں کی علامت یہ روایت کی گئی ہے کہ : ’’ حضرت علی رضی اللہ عنہ پر کسی دوسرے کو مقدم سمجھنا۔‘‘ اس کی تائید اس روایت سے ہوتی ہے کہ ائمہ علیہم السلام اور خواص لفظ ِ ناصبی کا اطلاق ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور ان جیسے لوگوں پر کرتے ہیں حالانکہ ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اہل بیت سے کوئی دشمنی نہیں رکھتے تھے بلکہ آپ ان سے محبت کا اظہار کرتے تھے۔ اور ان کی طرف مائل رہتے تھے۔ ہاں صرف رائے میں ان کی مخالفت کرتے تھے۔ فرمایاکرتے تھے :
’’حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یوں کہا ہے اورمیں ایسے کہتا ہوں۔‘‘
اوریہاں سے سید مرتضی اور ابن ادریس اور ہمارے بعض معاصر مشائخ کے اپنے تمام مخالفین کے نجس ہونے کے قول کو تقویت ملتی ہے ؛ اس طرف دیکھتے ہوئے کہ کتاب وسنت میں ان پر کفر و شرک کا اطلاق کیا گیا۔ اپنے اطلاق کے اعتبار سے یہ لفظ ان لوگوں کوشامل ہے، اس لیے کہ بے شک تحقیق سے [ثابت ہوتا ہے کہ] اس معنی کے اعتبار سے ان میں سے اکثر ناصبی ہیں۔‘‘[2]
یہ ان کے علماء کے اقوال ہیں جن میں کھل کر کہا گیا ہے کہ ناصبی سے مراد ان کے نزدیک اہل سنت ہیں۔ اور الدرازی نے صراحت کے ساتھ کہا ہے :
’’ناصبی وہ ہیں جنہیں ان کے ہاں سنی کہا جاتا ہے۔‘‘
اور اس لیے کہ ’’ناصبی وہ ہیں جو حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کومقدم سمجھیں،اور ان کے امام ہونے کا اعتقاد رکھیں۔ جیسے نعمت اللہ الجزائری نے صراحت سے کہا ہے کہ : ناصبی وہ ہے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ پر کسی دوسرے کو مقدم سمجھے۔‘‘
[1] المحاسن النفسانیۃ في أجوبۃ المسائل الخراسانیۃ ص: ۱۴۵-۱۴۷۔