کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 502
اس پر مستزاد یہ کہ ان کے بڑے محقق علماء کے ایک مجموعہ نے اپنی کتابوں میں کلمہ ’’نواصب‘‘ کے اطلاق کی تحقیق کی ہے، اور نتیجہ یہ نکالا ہے کہ اس سے مراد اہل سنت ہیں۔ حسین درازی کہتا ہے :
’’ناصب‘‘ کی تحقیق میں بہت زیادہ قیل و قال کیا گیا ہے، اور یہ میدان بہت ہی وسیع ہے، اور اس میں کئی اقوال پیش کیے جا سکتے ہیں۔ رہا اس کلمہ کا معنی جس پر کہ اخبار دلالت کرتی ہیں (جوکہ ہم نے پہلے پیش کی ہیں ) [یعنی ] حضرت علی علیہ السلام کے علاوہ باقی لوگوں کو مقدم جاننا ہے۔ جیساکہ ابن ادریس نے کتاب ’’مستطرفات السرائر‘‘ میں کتاب ’’مسائل الرجال‘‘ سے سند کے ساتھ محمد بن علی بن موسیٰ سے نقل کیا ہے، اس نے کہا ہے :
’’میں ان کی طرف، یعنی علی بن محمد علیہ السلام کی طرف ناصبیوں کے بارے میں لکھا کہ کیا اس کے امتحان کے لیے جبت اور طاغوت[مراد حضرت ابو بکر اورحضرت عمر کو لیتے ہیں ] کو افضلیت دینے اوران کی امام ہونے کے اعتقاد سے زیادہ کسی چیز کی ضرورت ہے ؟انہوں نے جواب میں لکھا : جس کا یہ اعتقاد ہو، وہ ناصبی ہے۔ ‘‘
اور راوندی نے شرح نہج البلاغہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کے بعد ناصبیوں کے بارے میں پوچھا گیا، توآپ نے فرمایا : ’’ جو علی رضی اللہ عنہ پر کسی دوسرے کو مقدم جانے۔‘‘ …یہاں تک کہ وہ کہتا ہے : بلکہ ائمہ علیہم السلام سے روایات پکار کر کہتی ہیں کہ ناصبی وہ ہے جسے ان کے ہاں ’’سنی‘‘ کہا جاتا ہے۔‘‘[1]
اس کی تائید نعمت اللہ الجزائری کا کلام بھی کرتا ہے جسے الأنوار النعمانیہ میں ذکر کیا ہے :
’’رہے ناصبی، اور ان کے احوال اوران کے احکام دو چیزوں کے بیان سے پورے ہوں گے:
اول : اخبار میں وارد ناصبی کے معنی کا بیان: یہ کہ ناصبی پلید ہے اور یہودی، نصرانی، اور مجوسی سے بھی برا ہے۔ اور بے شک بالاتفاق/ اجماعِ علماء امامیہ وہ [ناصبی] کافر پلید ہے۔
جس قول کو اکثر لوگوں نے اختیار کیا ہے، یہ ہے کہ نصب سے مراد آل بیت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے عداوت رکھنا؛ اور ان سے بغض کا اظہار کرنا ہے، جیسا کہ خوارج میں اور بعض ما وراء النہر [کے لوگوں ] میں موجود ہے۔ اور طہارت ونجاست،اور کفر و ایمان اور ناصبی کے ساتھ نکاح کے جائز ہونے یا نہ ہونے کے ابواب میں ان کے احکام مرتب کیے ہیں۔
[نیز وہ کہتا ہے ]ہمارے شیخ شہید ِ ثانی رحمہ اللہ نے ان کے بارے میں بعض عجیب باتیں معلوم کی ہیں۔ اور
[1] المحاسن النفسانیۃ ص؛ ۱۶۱۔
[2] من لا یحضرہ الفقیہ ۱/ ۲۶۵۔