کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 500
آپ نے کہا : ’’ ان سے نکاح بھی نہیں کرنا،اور نہ ہی ان کا ذبیحہ کھانا، اور نہ ہی ان کے ساتھ رہائش رکھنا۔‘‘[1]
محاسن نفسانیہ میں ابو عبد اللہ سے مروی ہے، انہوں نے اپنے بعض خراسانی ساتھیوں سے کہا :
’’ تم اپنے شہر والوں سے ہاتھ ملاتے ہو، اور ان کے ساتھ نکاح کرتے ہو؟آگاہ ہوجاؤ ! جب تم ان سے ہاتھ ملاؤ گے تو اس کی رسیوں میں سے ایک رسی ٹوٹ جائے گی اور جب تم نے ان سے نکاح کیا تو تمہارے اور اللہ کے درمیان حائل پردہ چاک ہوجائے گا۔‘‘[2]
خمینی اپنی کتاب ’’تحریر الوسیلہ‘‘ میں صراحت کے ساتھ اہل ِ سنت کے ساتھ نکاح کرنے سے منع کرتے ہوئے کہتا ہے:
’’کسی مومنہ [شیعیہ ] کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ کسی ایسے ناصبی مرد سے نکاح کرے جو اعلانیہ اہل ِ بیت کا دشمن ہو۔ اور نہ ہی غالی [سے ]جو کہ ان کی نبوت اور الوہیت کااعتقاد رکھنے والا ہو،اور ایسے ہی مومن کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ ناصبی عورت سے نکاح کرے؛ اور نہ ہی غالیہ سے۔ اس لیے کہ یہ دونوں کفار کے حکم میں ہیں اگرچہ وہ اسلام کی راہ پر چلتے ہوں۔‘‘[3]
پرانے اور نئے ہر دور کے رافضی علماء اہل سنت و الجماعت کے ساتھ نکاح حرام ہونے پر متفق ہیں۔ جس پر ان کی معتبر روایات اور سابقہ اقوال دلالت کرتے ہیں۔ رہا وراثت کا مسئلہ ؛ وہ اس بات کو جائز نہیں کہتے کہ کوئی سنی شیعہ کا وارث بنے۔ جب کہ شیعہ سنی کی وراثت حاصل کرسکتا ہے۔ خمینی لکھتا ہے:
’’مسلمان آپس میں ایک دوسرے کے وارث بنیں گے، اگرچہ وہ اصول،مذاہب اور عقائد میں اختلاف ہی کیوں نہ رکھتے ہوں۔ ان میں سے حق پر قائم رہنے والے کوباطل والے کی وراثت ملے گی اوراس کا عکس بھی ہوگا۔ اور مبطل، مبطل سے وراثت پائے گا۔ ہاں وہ غالی جن پر کفر کا حکم لگایا گیا ہے، اور خوارج اور نواصب ؛ اور جو کوئی ضروریات دین میں سے کسی ایک ضرورت کا انکار کرے ؛ اور اس کے ساتھ ہی وہ اس کی طرف متوجہ ہو، اور اس کے لازم کو اپنے آپ پر لازم کرتا ہو۔ ان کا حکم کفار کا ہے مسلمان ان کی وراثت پائے گا اوروہ مسلمان کی وراثت نہیں پائیں گے۔‘‘[4]
رہا مسئلہ نماز کا ؛ سو وہ اہل ِ سنت کے پیچھے نماز کو جائز نہیں سمجھتے۔ اوران کا عقیدہ ہے کہ اہل سنت کے پیچھے نماز باطل ہے، سوائے اس کے کہ مدارت اور تقیہ کرتے ہوئے پڑھ لی جائے۔
محاسن نفسانیہ میں فضیل بن یسار سے روایت ہے ؛ وہ کہتا ہے: میں نے ابو عبد اللہ علیہ السلام سے ناصبیوں سے نکاح اور ان کے پیچھے نماز پڑھنے کے بارے میں پوچھاتوآپ نے کہا :
[1] روضۃ الکافی ۸/ ۱۴۵۔ المحاسن ص: ۱۴۶۔
[2] بصائر الدرجات ص: ۱۶۹۔ بحار الأنوار ۲۶/ ۳۷۔
[3] تفسیر العیاشی ۱/ ۳۷۵۔
[4] فروع الکافی : ۵/ ۳۵۰
[5] فروع الکافی ۵/ ۳۵۱۔