کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 499
’’ آگاہ ہوجاؤ ! اللہ کی قسم! تم ہی حق پر ہو اور بے شک جو کوئی تمہاری مخالفت کرے وہ حق پر نہیں ہے۔‘‘[1]
اور حضرت علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا ہے :
’’ہاں اللہ کی قسم! میرے پاس بہت سارے صحیفے ہیں،جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اوران کے اہل بیت نے علیحدہ کیے تھے اور بے شک ان میں ایک صحیفہ ہے جس کا نام ہے ’’عبیطہ ‘‘ اس سے سخت عربوں کے بارے کہیں کچھ بھی وارد نہیں ہوا؛ بے شک اس میں عربوں کے ساٹھ متکبر قبیلے [درج ]ہیں ؛ جن کا اللہ کے دین میں کوئی بھی حصہ نہیں ہے۔‘‘[2]
یہودیوں کی طرح رافضی مسلمانوں کو کافر کہتے ہیں ؛ اور اسلام کو اپنی ذات کے لیے خاص کرتے ہیں۔ اور اس حوالے سے وہ اہلِ بیت پر جھوٹ باندھتے ہیں ؛ جس سے وہ عند اللہ بری ہیں۔ پھر جب ان لوگوں نے مسلمانوں پر کفر کا فتویٰ لگایا تو ان کے ساتھ کفار والا معاملہ کرنے لگے۔ پس یہ لوگ مسلمانوں کا ذبیحہ نہیں کھاتے ؛ اس لیے کہ ان کا اعتقاد ہے کہ یہ لوگ مشرک ہیں۔تفسیر عیاشی میں حمران سے مروی ہے : وہ کہتا ہے کہ میں ابو عبدا للہ علیہ السلام کو یہودی اور ناصبی کے ذبیحہ کے بارے میں کہتے ہوئے سنا:
’’ اس کا ذبیحہ نہیں کھانا یہاں تک کہ تم سن لو وہ اللہ کانام لے کر ذبح کررہا ہے۔‘‘[3]
ایسے ہی رافضی اہل سنت کے ساتھ نکاح کو بھی جائز نہیں سمجھتے۔ کافی میں فضیل بن یسار سے منقول ہے ؛ اس نے کہا ہے میں نے ابو عبد اللہ علیہ السلام سے ناصبیوں سے نکاح کے بارے میں سوال کیا، تو آپ نے کہا: ’’نہیں ؛ اللہ کی قسم ! یہ حلال نہیں ہے۔ ‘‘[4]
اور اسی میں عبد اللہ بن سنان سے مروی ہے وہ ابوعبد اللہ علیہ السلام سے روایت کرتا ہے ؛ کہا :
’’میرے باپ نے سوال کیا،اور میں سن رہا تھا؛ اس نے یہودی اورعیسائی عورت سے نکاح کے بارے میں پوچھا : تو انہوں نے کہا : ’’ میرے نزدیک اس [یہودی یا نصرانی عورت] سے نکاح ناصبی سے نکاح کی نسبت زیادہ پسندیدہ ہے۔ اور میں مسلمان مرد کے لیے پسند کرتا ہوں کہ وہ یہودی یا عیسائی عورت سے نکاح نہ کریں، اس خوف سے کہ کہیں اس کی اولاد کو یہودی یا عیسائی نہ بنادے۔‘‘[5]
اور استبصار میں ہے، فضیل بن یسار نے ابو جعفر سے روایت کیا ہے۔ کہا : ’’ نصّاب[ناصبیوں ] کا ذکر کیا گیا، تو
[1] اصحاح ۱۰؛ فقرات ۹-۱۱۔
[2] المحاسن ص: ۱۴۷۔
[3] تفسیر القمی ۲/ ۱۰۴۔
[4] الإختصاص ص: ۱۰۷۔