کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 498
منزلت پر فائز کردیا جائے؛ اور باقی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے براء ت کا اظہار نہ کرلیاجائے ؛ اور یہ اعتقاد نہ رکھا جائے کہ یہ سب کفار اور مرتد ہیں سوائے کچھ تھوڑے لوگوں کے۔ اور جو کوئی صحابہ سے براء ت کا اظہار نہ کرے، خصوصاً حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پہلے کے خلفائے راشدین سے؛ تو اس نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اس ولایت کو نہیں مانا جورافضیوں کے ہاں اسلام کے ارکان میں سے ایک رکن ہے۔[1]
باقی تمام اسلامی فرقے رافضیوں کے ساتھ اس عقیدہ میں موافقت نہیں رکھتے ؛ اسی لیے انہوں نے ان تمام فرقوں کے کافر ہونے کا فتویٰ لگادیا۔اورانہیں اسلام سے خارج قرار دیا ؛ اور ان کے مال اورخون کو مباح قرار دیا۔
یہ وہ سبب ہے جس کی وجہ سے رافضی مسلمانوں کی تکفیر کرتے ہیں ؛ ان کے رب العالمین میں عدم شراکت کی وجہ سے، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے افضل ترین صحابہ اورخلفاء راشدین رضی اللہ عنہم اجمعین ؛ اور امہات المومنین رضی اللہ عنہن سے اظہار براء ت نہ کرنے کی وجہ سے۔
پس کون سی گمراہی اس گمراہی سے بڑھ کر ہوگی اورکون سی رسوائی اس رسوائی سے زیادہ ہوگی۔ رافضیوں کے عام مسلمانوں کوکافر کہنے پر بہت سی روایات دلالت کرتی ہیں جو ان کی اہم ترین اور ثقہ کتابوں میں وارد ہوئی ہیں۔ برقی نے ابو عبد اللہ علیہ السلام سے روایت کیا ہے : بے شک انہوں نے کہا ہے:
’’ ابراہیم علیہ السلام کی ملت پر کوئی ایک بھی نہیں ہے سوائے ہمارے اور ہمارے شیعہ کے ؛ باقی تمام لوگ اس سے بری ہیں۔‘‘[2]
نیز تفسیرقمی میں ابو عبد اللہ علیہ السلام سے روایت ہے :
’’ ملت اسلامیہ پر ہمارے علاوہ اور شیعہ کے علاوہ کوئی نہیں ہوسکتا۔ ہم نے اپنے نبی کو کمر بندسے پکڑ رکھا ہے،اورنبی نے اپنے رب کو کمر بند سے پکڑ رکھا ہے،اور ہمارے شیعوں نے ہمیں کمر بند سے پکڑ رکھا ہے ؛ اور جو ہم سے جدا ہوا وہ ہلاک ہوگیا اورجس نے ہماری اتباع کی وہ نجات پاگیا اورہم سے جدا ہونے والا، اور ہماری ولایت کا انکار کرنے والا کافر ہے۔ او رہمارا پیروکار اورہمارے اولیا ء کا پیروکار مومن ہے۔‘‘[3]
اسی طرح حضرت علی بن حسین[ رضی اللہ عنہ ] سے روایت ہے، آپ نے فرمایا:
’’ہمارے علاوہ اور ہمارے شیعہ کے علاوہ کو ئی بھی فطرت ِ اسلام پر نہیں ہے، باقی تمام لوگ اس سے بری ہیں۔‘‘[4]
کلینی نے ابو عبداللہ علیہ السلام سے روایت کیا ہے ؛ بے شک آپ نے اپنے بعض پیروکاروں سے کہا:
[1] اصحاح ۷؛ فقرات۲-۳۔