کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 497
اورسفر تثنیہ میں ہے :
’’ انہیں کوئی عہد و پیمان نہ دینا؛ اور ان پر کوئی شفقت نہ کرنا، اور نہ ہی ان کے ساتھ سسرالی رشتہ قائم کرنا۔‘‘[1]
اور سفر عزراء میں ہے :
’’یہوذا اور بنیامین کے تمام مرد یرو شلم میں جمع ہوئے۔ توعزراء کاہن کھڑا ہوا اوران سے کہا :
’’بے شک تم نے داماد کے تعلقات قائم کیے ؛ اور اجنبی عورتوں سے شادیاں کیں، تاکہ تم بنی اسرائیل کے گناہ اور زیادہ کرو۔ اب تم اپنے آباء کے معبود رب کے سامنے[اپنے گناہ کا] اقرار کرو؛ اور اس کی رضامندی کے کام کرو،اس سرزمین کی قوم سے جدا ہوجاؤ ؛ اور اجنبی عورتوں سے بھی۔‘‘
یہ نصوص یہودیوں کے بیمار نفوس میں باقی اقوام کے خلاف بھری ہوئی حسد وبغض کی انتہا پر دلالت کرتی ہیں۔ یہاں تک کہ اس وجہ سے وہ شریعت کے مبادیات اور اخلاقی تعلیمات سے بھی کھلواڑ کرنے لگے ؛ اور اب انہوں نے اپنے ایمان کوایسی چیزوں تک ہی محدود کردیا ہے۔ اور اپنے مقرر کردہ مبادیات اخلاق جیسے : زنا؛ غدر اور چوری وغیرہ پر ہی عمل کرتے ہیں، جن کا یہودیوں کے مابین کرنا حرام ہے؛ مگر جب یہی امور یہودیوں کے علاوہ باقی اقوام سے متعلق ہوتے ہیں، تو ان کا انجام دینا یہودیوں کے لیے نہ صرف حلال ہوجاتا ہے، بلکہ وہ ایسے اعمال سے اللہ تعالیٰ کی قربت حاصل کرتے ہیں۔
دوسری بحث :…روافض کی غیروں کی تکفیر اور ان کے مال و خون کا مباح جاننا
رافضی ( شیعہ) اس بات کا اعتقاد رکھتے ہیں کہ بے شک مومن صرف وہی ہیں ؛ اوران کے علاوہ جتنے بھی مسلمان ہیں وہ کافر اورمرتد ہیں، اسلام میں ان کا کوئی حصہ نہیں۔
رافضیوں کے مسلمانوں کوکافر کہنے کا سبب یہ ہے کہ انہوں نے ولایت کو نہیں مانا جس کے بارے میں ان کا عقیدہ ہے کہ یہ اسلام کے ارکان میں سے ایک [اہم ترین]رکن ہے۔ پس ہر وہ انسان جو ولایت کو نہ مانے وہ رافضیوں کے نزدیک کافر ہے ؛ وہ اس آدمی کی طرح ہے جس نے شہادتین کا ہی اقرار نہ کیا ہو یا نماز کا تارک ہو۔بلکہ ان کے نزدیک ولایت باقی تمام ارکان اسلام پر مقدم ہے۔
اوررافضی ولایت سے مراد حضرت علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ اور ان کے بعد ائمہ کی ولایت کو لیتے ہیں۔ اور ان کے نزدیک یہ ولایت اس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتی یہاں تک کہ ائمہ کی شان میں غلو کرتے ہوئے انہیں ربوبیت کی
[1] اسرائیل و تلمود ص: ۷۵۔
[2] المرجع السابق۔
[3] اسرائیل و تلمود ص: ۷۶۔
[4] اصحاح ۳۴، فقرات ۱۱-۱۶۔