کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 495
[غیر یہودی سے سود]: ایسے ہی سودیہودیوں کے مابین (آپس میں ) تو حرام ہے مگر غیر یہودی کو سودی قرض دینا جائزہے۔ اس لیے ان کاخیال ہے کہ یہ اجنبی لوگوں سے مال واپس لینے کے وسائل میں سے ایک وسیلہ [ذریعہ ] ہے ؛ وہ مال جو کہ اصل میں انہی کی ملکیت ہے۔ (جیسے کہ ان لوگوں کا عقیدہ ہے ) سفرتثنیہ میں آیا ہے: ’’اپنے بھائی کو سود پر قرض مت دو، خواہ سود مال میں ہو یا کھانے [ پینے کی چیزوں ]میں، یا کسی ایسی چیزمیں سود ہو جو سود پر قرض دی جاتی ہو۔ غیر یہودی کو سود پر قرض دے دو، مگر اپنے بھائی کو سود پر قرض مت دو۔‘‘[1] نیز تلمود میں یوں آیا ہے: ’’ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ذمی [غیر یہودی ] سے سود لینے کا حکم دیا ہے اور یہ کہ ہم اسے کوئی بھی چیز بغیر سود کے قرض پر نہ دیں۔ بصورت دیگرہم اس کی مدد کرنے والے ہوں گے۔جب کہ ان کو تکلیف دینا ہم پر واجب ہے۔‘‘[2] نیز تلمود میں یہ بھی آیا ہے : ’’ یہودی کو اس بات کی اجازت نہیں ہے کہ وہ غیر یہودی کو سود کے بغیر قرض دے۔‘‘[3] یہ وہ بنیادی امور ہیں جن تعلیم یہودی علماء عام یہودیوں کو دیتے ہیں۔ ان کے علاوہ باقی تمام لوگوں کے اموال مباح ہیں۔ اصل میں وہ یہودیوں کی ملکیت ہیں، اور ان کا کسی بھی وسیلہ سے واپس لینا جائز ہے، خواہ یہ وسیلہ دھوکے بازی؛ چوری؛ سودخوری [کچھ بھی] ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی مقدس کتاب میں اس یہودی عقیدہ کے بارے میں خبر دی ہے ؛ [فرمان الٰہی ہے]: ﴿وَمِنْ أَہْلِ الْکِتَابِ مَنْ إِنْ تَأْمَنْہُ بِقِنْطَارٍ یُؤَدِّہِ إِلَیْکَ وَمِنْہُم مَّنْ إِنْ تَأْمَنْہُ بِدِیْنَارٍ لَّا یُؤَدِّہِ إِلَیْکَ اِلَّا مَا دُمْتَ عَلَیْہِ قَآئِمًا ذَلِکَ بِأَنَّہُمْ قَالُوْا لَیْسَ عَلَیْنَا فِی الأُمِّیِّیْنَ سَبِیْلٌ وَیَقُوْلُوْنَ عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ وَہُمْ یَعْلَمُوْنَ﴾ (آلِ عمران:۷۵) ’’ اور اہل کتاب میں سے کوئی تو ایسا ہے کہ اگر تم اُس کے پاس ( روپوں کا ) ڈھیر رکھ دو تو تم کو ( فورا) واپس دے دے اور کوئی اس طرح کا ہے کہ اگر اُس کے پاس ایک دینار بھی امانت رکھو تو جب تک اُس کے سر پر ہر وقت کھڑے نہ رہو تمہیں دے گاہی نہیں۔ یہ اس لیے کہ وہ کہتے ہیں کہ امیوں کے بارے میں
[1] اصحاح ۳؛ فقرات ۲۱-۲۲۔ [2] الکنز المرصود ،ص: ۷۲۔ [3] المصدر السابق ص: ۷۳۔ [4] اسرائیل و تلمود ص: ۷۲۔ [5] ہمجیۃ التعالیم الصہیونیۃ ص: ۸۲۔ [6] ہمجیۃ التعالیم الصہیونیۃ ص: ۸۲۔