کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 49
عبد المنذر[1] کو ہمارے پاس بھیج دیا جائے؛ تاکہ وہ ان سے اپنے بارے میں مشورہ کرسکیں اس لیے کہ وہ پہلے قبیلہ اوس کے حلیف تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بھیج دیا۔ یہودیوں نے آپ سے پوچھا: ’’ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر قلعوں سے نیچے اتر جائیں ؟(تو ہمارے ساتھ کیا سلوک ہوگا؟)
انہوں نے کہا: ہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر اتر جائیے۔
جب صبح کو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر قلعوں سے اترے ؛توقبیلہ اوس نے کہا: ’’ یا رسول اللہ ! یہ خزرج کے خلاف ہمارے مدد گار تھے۔ ہمارے بھائیوں کے مدد گاروں کے ساتھ جو سلوک آپ نے کیا ہے، وہ آپ جانتے ہی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ اے اوس کے لوگو! کیا تم یہ بات پسند کروگے کہ ان کے بارے میں تم میں سے ہی ایک آدمی فیصلہ کرے۔کہنے لگے : یارسول اللہ ! کیوں نہیں۔ آپ نے فرمایا:’’ بس یہ معاملہ سعد بن معاذ کے فیصلہ پر ہے۔‘‘
حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے ان کے بارے میں یہ فیصلہ کیا کہ ان کے مرد قتل کردیے جائیں اور مال تقسیم کردیے جائیں اور عورتوں اور بچوں کو قیدی بنالیا جائے۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے کہا: ’’ بے شک آپ نے ان کے بارے میں سات آسمانوں کے اوپر اللہ تعالیٰ کے فیصلہ کے مطابق فیصلہ کیا ہے۔‘‘
پھر انہیں وہاں سے اتار کر مدینہ میں بند کردیا گیا۔پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بازار کی طرف نکلے ؛ اور وہاں پر خندقیں کھودوائیں، اور ان خندقوں میں وہاں پر ا ن کی گردنیں ماری گئیں۔‘‘[2]
رابعاً : فتح خیبر :
یہودیوں کی مدینہ سے جلا وطنی کے بعد خیبر بہت سے اسلام دشمنی رکھنے والے یہودیوں کی پناہ گاہ بن گیاتھا۔ وہ ہمیشہ مسلمانوں پر گردش ِ ایام کے منتظر رہتے تھے۔ اور قبلہ غطفان کے ساتھ مدینہ منورہ پر حملہ کے لیے سازشیں کیا کرتے تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے فتنہ سے امان پانے اور ان کے شر سے راحت حاصل کرنے کا ارادہ کرلیا۔ حدیبیہ سے واپس آکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مہینہ یا اس سے بھی کم وقت ہی مدینہ میں رہے ہوں گے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں میں خیبر کی طرف کوچ کرنے کا اعلان کروادیا۔[3]
[1] آپ کا نام بشیر تھا۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ رفاعہ نام تھا۔ مشہور صحابی ہیں ‘ نقباء میں سے ایک تھے۔حضرت علی -رضی اللہ عنہ-کی خلافت تک زندہ رہے۔ تقریب التہذیب ص ۶۶۹۔
[2] انظر : ابن ہشام : السیرۃ النبویۃ ۳/۱۰۴۸۔و ابن کثیر : السیرۃ النبویۃ ۳/۲۳۲-۲۳۳۔
[3] انظر : الندوي : السیرۃ النبویۃ ۳۵۳۔