کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 482
اللہ تعالیٰ کے محبوب اور اس کے پسندیدہ ہونے کے اس یہودی افترا اور دروغ گوئی پر ردّ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿ وَ قَالَتِ الْیَہُوْدُ وَ النَّصٰرٰی نَحْنُ اَبْنٰٓؤُا اللّٰہِ وَ اَحِبَّآؤُہٗ قُلْ فَلِمَ یُعَذِّبُکُمْ بِذُنُوْبِکُمْ بَلْ اَنْتُمْ بَشَرٌ مِّمَّنْ خَلَقَ یَغْفِرُ لِمَنْ یَّشَآئُ وَ یُعَذِّبُ مَنْ یَّشَآئُ وَ لِلّٰہِ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ مَا بَیْنَہُمَا وَ اِلَیْہِ الْمَصِیْرُ ﴾ (المائدہ: ۱۸)
’’ اور یہود اور نصاریٰ کہتے ہیں کہ ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے پیارے ہیں کہو کہ پھر وہ تمہاری بد اعمالیوں کے سبب تمہیں عذاب کیوں دیتا ہے؟ (نہیں ) بلکہ تم اُس کی مخلوقات میں (دوسروں کی طرح کے) انسان ہو وہ جسے چاہے بخشے اور جسے چاہے عذاب دے اور آسمان اور زمین اور جو کچھ ان دونوں میں ہے سب پر اللہ ہی کی حکومت ہے اور (سب کو) اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔‘‘
علامہ قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ ان کے اس قول پر رد کیاہے اور فرمایا ہے:
﴿فَلِمَ یُعَذِّبُکُم بِذُنُوْبِکُمْ﴾
’’پھر وہ تمہاری بد اعمالیوں کے سبب تمہیں عذاب کیوں دیتا ہے۔‘‘
یہ دووجوہ سے خالی نہیں ہے:
یا تو وہ کہیں گے کہ وہ ہمیں عذاب دیتا۔ اگر وہ تمہیں عذا ب دیتا ہے تو پھر تم اس کے محبوب اور اس کے بیٹے نہیں ہو۔ اس لیے کہ محب اپنے حبیب کوعذاب نہیں دیتا حالانکہ تم اس کے عذاب کا اقرار کرتے ہو؛ یہ تمہارے جھوٹا ہونے کی دلیل ہے۔
یا توپھر وہ کہیں گے : وہ ہمیں عذاب نہیں دیتا۔ تو اس وقت وہ اپنی کتابوں کی روایات اور اپنے رسولوں کی تعلیمات کوجھٹلائیں گے۔ اور گناہ کے کاموں کو مباح کہیں گے حالانکہ وہ نافرمانوں کو عذاب دیے جانے کا اعتراف کرتے ہیں۔ اور اپنی کتابوں کے احکام کا التزام کرتے ہیں۔‘‘
پھر جب اللہ تعالیٰ نے ان کے دعویٰ کو اس عقلی دلیل سے باطل ثابت کیا ؛ جس کے رد کی استطاعت ان میں نہیں ہے؛ پھر ان کے لیے حق بات بیان کی، فرمایا:
﴿بَلْ أَنتُمْ بَشَرٌ مِّمَّنْ خَلَقَ یَغْفِرُ لِمَن یَّشَآئُ وَیُعَذِّبُ مَن یَّشَائُ ﴾
’’بلکہ تم اُس کی مخلوقات میں (دوسروں کی طرح کے) انسان ہو وہ جسے چاہے بخشے اور جسے چاہے عذاب دے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے انہیں خبر دی کہ بے شک وہ بشر ہیں، جیسے اللہ کی مخلوق میں باقی سارے بشر ہیں۔ اور ان کے لیے
[1] نونیۃ القحطانی ص۲۱۔
[2] مجموع الفتاویٰ ۲۸/ ۴۸۲۔
[3] مجموع الفتاویٰ ۲۸/ ۴۸۳۔
[4] روضۃ الکافی ۲۸/ ۷۸۔
[5] الأنوار النعمانیۃ ۲/ ۴۷۔