کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 48
امان بخشتے ہوئے جلاوطن کردیا جائے ؛ اورانہیں اسلحہ اور مال سے اونٹ ساتھ لاد کر لے جانے کی اجازت دی جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے ہی کیا۔( اور انہیں اس کی اجازت دیدی) انہوں نے اپنا وہ مال ساتھ لے لیا جو اونٹ اٹھا سکتے تھے۔ ان میں سے کوئی ایک اپنے گھر کو اپنے ہاتھوں سے اکھاڑتا۔ اور اسے اونٹ کی پیٹھ پر لاد دیتا؛ اور اسے لے کر چل پڑتا۔ یہ لوگ خیبر کی طرف نکل گئے ؛ اور ان میں سے بعض شام چلے گئے۔[1] ثالثاً: غزوہ بنو قریظہ : بنو قریظہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان عہد ومیثاق تھے لیکن غزوۂ احزاب کے موقع پر انہوں نے یہ تمام عہد و پیمان توڑ دیے ؛ اور انہوں نے اپنی بھائیوں بنو نضیر کے ساتھ حصہ ڈالتے ہوئے قریش، غطفان اور دوسرے قبائل عرب کو مسلمانوں کے خلاف جنگ کیلئے تیار کیا۔ جب غزوۂ احزاب مشرکین کی ہزیمت کے ساتھ اپنے انجام کو پہنچ گیا؛ اور اللہ تعالیٰ نے مشرکین پر ایسی آندھی بھیجی جس سے ان کے خیمے اکھڑ گئے اور ہانڈیاں الٹ گئیں۔وہ ملائکہ کا لشکر تھاجو انہیں ہلا رہا تھا۔یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں کے ساتھ نصرت مکمل ہوگئی اور مشرکین اور دوسرے گروہ متفرق ہوگئے۔[2] اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورمسلمان مدینہ میں اپنے گھروں کو واپس لوٹے،اور اسلحہ رکھا۔ جب نماز ظہر کا وقت ہوا تو جبرئیل امین علیہ السلام استبرق کا عمامہ باندھے ہوئے خچر پر سوار ہو کر ؛ جس پر ریشم کا بچھوناتھا ؛ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے؛ اور کہا : ’’ یارسول اللہ ! کیا آپ نے اسلحہ رکھ دیا ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ہاں۔ توجبرئیل ا مین نے کہا: مگر ملائکہ نے اپنا اسلحہ ابھی تک نہیں رکھا ؛ اور میں صرف اس قوم کی تلاش میں واپس آیا ہوں۔ اے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) ! اللہ تعالیٰ آپ کو حکم دیتے ہیں کہ بنو قریظہ کی طرف کوچ کرو۔ میں بھی ان ہی کی طرف جارہا ہوں، اور انہیں ڈگمگانے والا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منادی کرنے والے کو حکم دیا ؛ اس نے لوگوں میں آواز لگائی ؛ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( مَنْ کَانَ سَامِعًا مُطِیْعًا فَـلَا یُصَلَّیْنَ الْعَصْرَ إِلَّا فِیْ بَنِیْ قُرَیْظَۃَ۔)) [3] ’’ جو کوئی بات سننے والا اور ماننے والا ہو اسے چاہیے کہ نماز عصر بنو قریظہ پہنچ کرپڑھے۔ ‘‘ اس دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ پر ابن ام مکتوم کو امیر بنایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پچیس دن تک ان کا محاصرہ کیے رکھا، یہاں تک کہ اس محاصرہ نے انہیں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا؛ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا۔انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آدمی بھیجا کہ ابو لبابہ بن
[1] انظر : ابن ہشام : السیرۃ النبویۃ ۳/۹۹۴-۹۹۵۔ [2] انظر : مختصر سیرۃ رسول صلي الله عليه وسلم للشیخ محمد بن عبد الوہاب ص ۱۲۸۔ [3] انظر : ابن ہشام : السیرۃ النبویۃ ۳/۱۰۴۴-۱۰۴۵۔