کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 479
﴿لَا یَسْتَوِی مِنْکُمْ مَنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ اُوْلٰٓئِکَ اَعْظَمُ دَرَجَۃً مِّنْ الَّذِیْنَ اَنْفَقُوْا مِنْ بَعْدُ وَقَاتَلُوْا وَکُلًّا وَعَدَ اللّٰہُ الْحُسْنٰی ﴾ (الحدید:۱۰)
’’جس شخص نے تم میں سے فتح (مکہ) سے پہلے خرچ کیا اور لڑائی کی وہ (اور جس نے یہ کام پیچھے کیے وہ) برابر نہیں ان لوگوں کا درجہ ان لوگوں سے کہیں بڑھ کر ہے جنہوں نے بعد میں خرچ (اموال) اور (کفار سے) جہاد و قتال کیا اور اللہ نے سب سے (ثواب) نیک (کا) وعدہ توکیا ہے۔‘‘
سلمان، صہیب اور بلال رضی اللہ عنہم اجمعین ان لوگوں میں سے ہیں جو فتح سے پہلے ایمان لائے۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل کراپنی جان و مال سے جہاد کیا ؛پس وہ اس آیت کی روشنی میں ان لوگوں سے افضل ہوئے جو فتح کے بعد ایمان لائے۔
ان دلائل میں تدبر و تفکر کرنے والے کے لیے بہت بڑی حکمتیں ہیں۔ یہ دلالت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں برتری کا معیار اللہ تعالیٰ پر ایمان ہے، قطع نظر کسی جنس، رگ یا رنگ کے۔ مگر یہودیوں اور رافضیوں کے دل معانی پر تدبر کرنے سے اندھے ہوچکے ہیں۔ اورایسے ہی احادیث بھی دلالت کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں فضیلت کا معیار تقویٰ ہے۔
صحیح مسلم میں مروی ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( إن اللّٰه لا ینظر إلی صورکم و أموالکم، ولکن ینظرإلی قلوبکم و أعمالکم۔)) [1]
’’ بے شک اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں اور اموال کی طرف نہیں دیکھتے، لیکن وہ تمہارے دلوں کو اور تمہارے اعمال کو دیکھتے ہیں۔‘‘
امام احمد رحمہ اللہ نے عقبہ بن عامر الجہنی سے روایت کیا ہے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( إن أنسابکم ہذہ لیست بمسبۃ علی أحدکم، کلکم بنوآدم ؛ طف الصاع بالصاع حتی تملؤہ؛ لیس لأحد علی أحد فضل إلا بدین أوتقوی؛ کفی بالرجل أن یکون بخیلاً ؛ بذیاً فاحشاً۔))[2]
’’ بے شک تمہارے یہ نسب تم میں سے کسی ایک پر گالی دینے کاسبب نہیں ہیں۔ تم تمام بنی آدم میں سے؛ ایک صاع [ایک قسم کا پیمانہ] کی صاع سے پیمائش کرو،یہاں تک کہ اسے بھر دو۔ اور کسی ایک کسی پر کوئی فضیلت نہیں ہے مگر تقویٰ اور دین کی وجہ سے؛اور کسی انسان [کے برا ہونے ] کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ بخیل، بیہودہ گو اور فاحش ہو۔‘‘
نوٹ: یہاں اصل کتاب میں حتّٰی کی جگہ لم ہے جبکہ ترجمہ کے مطابق حتّٰی ہوگا۔
[1] علماء کرام نے لکھا ہے کہ شفاعت کافروں کو جہنم کی آگ سے نکالنے کے لیے کام نہ آئے گی۔ اس کی دلیل اللہ تعالیٰ یہ فرمان ہے:﴿فما تنفعہم شفاعۃ الشافعین﴾ (المدثر: ۴۸) اورانہیں شفاعت کرنے والوں کی شفاعت کام نہ آئی۔‘‘
مزیددیکھو: شرح العقیدۃ الطحاویۃ لابن أبی العز الحنفی ص: ۲۲۸۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت ابو طالب کو جہنم سے نکالنے لیے کام نہ آئی۔
[2] صحیح مسلم کتاب الإیمان ؛ باب شفاعۃ النبي صلي الله عليه وسلم لأبي طالب و التخفیف عنہ بسببہ ؛ ۱/ ۱۹۵؛ ح: ۳۶۰۔