کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 478
یہ دو انسان رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابو لہب اورابو طالب ہیں۔ انہیں خاتم النبیین، سید المرسلین اور خلیلِ رب العالمین کا چچا ہونافائدہ نہیں پہنچا سکا۔ اور نہ ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے قرابت اور نسب کی بزرگی[شرافت]کام آسکی۔ اوروہ دونوں [ایمان نہ لانے کی وجہ سے ]ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنمی ہو گئے۔[1] اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿تَبَّتْ یَدَآ أَبِیْ لَہَبٍ وَتَبَّ o مَآ أَغْنٰی عَنْہُ مَالُہُ وَمَا کَسَبَ o سَیَصْلَی نَارًا ذَاتَ لَہَبٍ﴾ (اللہب:۱۔۳)
’’ابولہب کے ہاتھ ٹوٹیں اور وہ ہلاک ہو نہ تو اس کا مال ہی اس کے کچھ کام آیا اور نہ وہ جو اس نے کمایا، وہ جلد بھڑکتی ہوئی آگ میں داخل ہو گا۔‘‘
ایسے ہی ابو طالب ہمیشہ کے لیے جہنمی ہے۔ اوربے شک اس کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتنی شفاعت قبول کی جائے گی کہ اس پر عذاب کوتھوڑا کم کردیا جائے۔ یہ ابتدائے دعوت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کرنے کی وجہ سے ہے۔
امام مسلم نے اپنی صحیح میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے : بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آپ کے چچا ابو طالب کا تذکرہ کیا گیا ؛ توآپ نے فرمایا:
’’ شاید اسے قیامت کے دن میری شفاعت کام آئے۔ اوراسے آگ کی کھڑاؤں [لکڑ کا جوتا] پہنادیا جائے گاجواس کے ٹخنے تک پہنچ رہا ہوگا،اوراس سے اس کا دماغ کھول رہا ہوگا۔‘‘[2]
یہ دونوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ہیں ؛ جو لوگوں میں نسب کے لحاظ سے سب سے عزت والے ہیں۔ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرابت اور خاندانی شرف اللہ کے ہاں کچھ بھی کام نہ آئے۔ اوران دونوں کی موت شرک کی حالت میں آئی۔
ان کے مقابلہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے سلمان الفارسی ؛ صہیب رومی ؛ بلال بن رباح حبشی ؛ جن کا وہ خاندانی شرف نہیں تھا ؛ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچاؤں کا تھا؛ مگر اس کے باوجود ان کا شمار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ، اور اللہ اور اس کے رسول کے اور مومنین کے محبوب لوگوں میں سے ہوتا؛ بہ نسب ابو طالب اور ابولہب۔ [کہ ان سے کوئی مسلمان محبت نہیں کرتا ]
بلکہ ان قریشی سرداروں سے [مذکورہ بالا صحابہ] افضل ہیں جو فتح (یعنی صلح حدیبیہ )کے بعد ایمان لائے ؛ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کا شرف حاصل کیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :