کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 477
حق (بات) کی تلقین اور صبر کی تاکید کرتے رہے۔‘‘
پس اللہ تعالیٰ نے واضح کردیاہے کہ ہر انسان گھاٹے میں ہے، سوائے اس کے جس میں یہ صفات پائی جائیں۔جو اس امر کی دلیل ہے کہ اللہ کے ہاں عذاب سے نجات اور اس کی جنت کا پانا ؛ ان میں سے کسی ایک معیار کے تابع نہیں سوائے اس معیار کے جو اللہ تعالیٰ نے ذکر کیا ہے۔ اورکسی ایک جنس کو چھوڑ کر دوسری کی کوئی فضیلت نہیں ہے مگر اللہ پر ایمان کی وجہ سے۔ اور اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا کسی ایک خاص گروہ تک محدود نہیں ہے بلکہ جو بھی اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اور اس کے ساتھ کسی کوشریک نہ ٹھہرائے، اور اس کے رسولوں کی تصدیق کرے، اللہ تعالیٰ اس سے قبول فرمائیں گے،اور اس کے ایمان پر ثواب دیں گے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿اِنَّ الَّذِیْنَ آمَنُوْا وَالَّذِیْنَ ہَادُوْا وَالنَّصَارَیٰ وَالصَّابِئِیْنَ مَنْ آمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحاً فَلَہُمْ أَجْرُہُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَیْْہِمْ وَلَا ہُمْ یَحْزَنُوْنَ ﴾
(البقرہ: ۶۲)
’’جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست (یعنی کوئی شخص کسی قوم و مذہب کا ہو) جو اللہ اور روزِ قیامت پر ایمان لائے گا اور نیک عمل کرے گا تو ایسے لوگوں کو ان کے (اعمال کا) صلہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ملے گا اور (قیامت کے دن) نہ ان کو کسی طرح کا خوف ہو گا اور نہ وہ غمناک ہوں گے۔‘‘
پس اللہ تعالیٰ نے ان گروہوں اور ان کے ناموں کی طرف نہیں دیکھا بلکہ ایمان باللہ کو نجات کی شرط بنایا ہے؛ جو کوئی بھی یہ شرط پوری کردے، یہ نہیں دیکھا جائے گا کہ وہ کس گروہ کی طرف منسوب ہے۔
قرآن کریم میں اس پر بہت سے شواہد ہیں ؛ جو دلالت کرتے ہیں کہ مشرکین کو ان کا نسب کام نہیں آیا۔ یہ حضرت ابراہیم کے[مشرک] والدہیں ؛ انہیں یہ کام نہیں آیا کہ وہ ابراہیم خلیل اللہ کے والد ہیں ؛ اورنہ ہی ابراہیم علیہ السلام کا ان کے لیے مغفرت کی دعا کرنا کوئی فائدہ دے سکا بلکہ ابراہیم علیہ السلام نے بھی اس کے لیے استغفار کرنا ترک کردیا، اور اس سے براء ت کا اظہار کردیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وَمَا کَانَ اسْتِغْفَارُ إِبْرَاہِیْمَ لِأَبِیْہِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَۃٍ وَعَدَہَا إِیَّاہُ فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہُ أَنَّہُ عَدُوٌّ لِلّٰہِ تَبَرَّأَ مِنْہُ اِنَّ إِبْرَاہِیْمَ لَأَوَّاہٌ حَلِیْمٌ﴾ (التوبہ :۱۱۴)
’’ اور ابراہیم کااپنے باپ کے لیے بخشش مانگنا تو ایک وعدے کے سبب تھا جو وہ اُس سے کر چکے تھے لیکن جب اُن کو معلوم ہو گیا کہ وہ اللہ کا دشمن ہے تو اُس سے بیزار ہو گئے، کچھ شک نہیں کہ ابراہیم بڑے نرم دل اور متحمل تھے۔‘‘
[1] تفسیر ابن کثیر ۴/۲۱۷۔