کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 476
اوررافضی دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اللہ کے شیعہ، اس کے انصارو مددگار اور پیارے ہیں جن میں سے کسی ایک کو بھی جہنم میں داخل نہیں کیا جائے گا۔
قرآن کریم میں ان دونوں گمراہ گروہوں پر رد آیا ہے۔ سو اللہ تعالیٰ نے ان حقیقی پیمانوں اور معیار کوبیان کیا ہے جن کی وجہ سے لوگ اپنے رب کے ہاں ایک دوسرے پر فضیلت پاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿یٰٓـاَ یُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنَاکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّأُنْثَی وَجَعَلْنَاکُمْ شُعُوْبًا وَّ قَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوا اِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ أَتْقَاکُمْ ﴾ (الحجرات:۱۳)
’’ اے لوگو! بے شک ہم نے تمہیں ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا ہے،اور ہم نے تمہیں قبائل اور خاندان اس لیے بنایا ہے تاکہ تم پہچان حاصل کرسکو، تم میں سب سے زیادہ عزت والا اللہ تعالیٰ کے ہاں وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی اور پرہیز گار ہو۔‘‘
سو اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ اس نے لوگوں کوقوم اور قبیلے بنایا ہے ؛اورتمام لوگوں کی اصل ایک ہی ہے حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حواء۔ پھر لوگوں کو قومیں اور قبیلے بنانے کی حکمت بیان کی ؛ اوروہ حکمت ہے : آپس میں تعارف اورپہچان۔یعنی تاکہ آپس میں ایک دوسرے کو پہچان سکیں، اور ہر انسان اپنے قبیلہ کی طرف رجوع کرے اور اس سے منسوب ہو۔‘‘
جب کہ ان لوگوں کے آپس میں فضیلت کا معیار اللہ کے ہاں کچھ اور ہے، جس کا کسی جنس و رگ ؛ اور رنگ سے کوئی تعلق نہیں۔ اور وہ معیار ہے تقویٰ، جیسا کہ اس نے خود ہی فرمایاہے:
﴿ اِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ أَتْقَاکُمْ ﴾ (الحجرات:۱۳)
’’تم میں سب سے زیادہ عزت والا اللہ تعالیٰ کے ہاں وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی اور پرہیزگار ہے۔‘‘
امام ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
’’ بے شک اللہ کے ہاں تم فضیلت پاتے ہوتقویٰ کی وجہ سے نہ کہ حسب و نسب کی بناپر۔‘‘[1]
اور یقیناً اللہ تعالیٰ نے یہ خبر بھی دی ہے کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان کامیابی اورنجات کا سبب ہے، اورجو کوئی ایما ن نہ لائے، وہ گھاٹا اورہلاکت پانے والاہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿ وَالْعَصْرِ o اِنَّ الْإِنسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ o اِلَّا الَّذِیْنَ آمَنُوْا وَعَمِلُوْا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ o ﴾ (العصر:۱۔۳)
’’عصر کی قسم! کہ انسان نقصان میں ہے مگر وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے اور آپس میں