کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 468
یہ رافضیوں کے سپنے ہیں، اور ان کے خیالی پلاؤ ہیں۔ وہ گمان کرتے ہیں کہ ان میں سے ایک آدمی بھی جہنم میں نہیں جائے گا۔ انہوں نے افترا پروری کی؛ اور اس بارے میں ائمہ اہل بیت پر ان کی زبانی ایسی گری ہوئی روایات گھڑ کر جھوٹ بولا۔ رافضی اپنے اس عقیدہ کی وجہ سے یہودیوں کہ اس دعوی سے بھی آگے بڑھ گئے ہیں کہ:’’ انہیں جہنم کی آگ نہیں چھوئے گی مگر صرف گنتی کے چند دن۔‘‘ جبکہ یہودیوں نے ایسے نہیں کہا جیسے یہ رافضی کہتے ہیں۔ انہوں نے کہا تھا : ہم جہنم میں جائیں گے، مگر ہمیشہ ہمیشہ اس میں نہیں رہیں گے۔ جب کہ رافضی لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ وہ جہنم میں ہر گزداخل ہی نہیں ہوں گے، اورنہ ہی ان میں سے کوئی ایک آدمی جہنم میں داخل ہوگا۔ وہ اپنے جہنم میں داخل نہ ہونے کی علت یہ پیش کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ شیعہ گنہگاروں کے بدلے سنیوں کو فدیہ میں دیں گے۔ جیسے کہ اس عقیدہ پر کاشانی کی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے نقل کردہ روایت دلالت کرتی ہے، بے شک آپ نے فرمایا: ’’ ہمارے شیعہ میں سے اعمال میں کمی کرنے والے ایک آدمی کو لایا جائے گا۔ ولایت، تقیہ اور اس کے بھائی کے حقوق کا بدلہ چکانے کے بعد اس کے مقابلہ میں سو سے زیادہ ایک لاکھ تک ناصبی کھڑے کیے جائیں گے۔ پھر اس سے کہا جائے گا : بے شک یہ لوگ آگ میں تمہارا فدیہ ہیں، پس یہ مومنین جنت میں داخل کیے جائیں گے، اور وہ ناصبی جہنم میں داخل کیے جائیں گے۔‘‘[1] [اتنا ہی کافی نہیں ] بلکہ یہ بھی عقیدہ رکھتے ہیں کہ اس دنیا میں بھی آگ نہیں جلائے گی، خواہ وہ کتنے گندے جرم کیوں نہ کریں،اور کبیرہ گناہوں میں سے کوئی گناہ کیوں نہ کرلیں۔ عیون المعجزات کے مصنف نے روایت کیا ہے۔ بے شک حضرت علی رضی اللہ عنہ کے شیعہ میں سے ایک آدمی ان کے پاس آیا؛ اورکہا : میں آپ کے شیعہ میں سے ہوں ؛ اور مجھ پر بہت زیادہ گناہ ہیں۔میں چاہتا ہوں کہ آخرت کی طرف کوچ کرنے سے پہلے اس دنیا میں آپ مجھے ان گناہوں سے پاک کردیں۔ تاکہ میں آخرت کی طرف کوچ کروں تو مجھ پر کوئی گناہ نہ ہو۔ تو آپ علیہ السلام نے پوچھا : مجھے بتاؤ تمہارا سب سے بڑا گناہ کون سا ہے ؟کہنے لگا :میں لڑکوں سے لونڈے بازی کرتا ہوں۔تو آپ نے کہا : کون سی چیز تمہیں پسند ہے ؟ ذوالفقار [تلوار] کی مار ؛یا تم پر دیوار گرادینا؛ یا تمہارے لیے آگ جلانا، اس لیے کہ اُس جرم کرنے والے کی یہی سزا ہے؛جس کا ارتکاب تم نے کیاہے۔ تو اس نے کہا : اے میرے آقا: مجھے آگ سے جلا دو۔ امام نے اس آدمی کو باہر نکالا، اور اس پر ہزار لکڑیوں کا الاؤ چنا؛ اوراس میں چنگاری اور ایندھن سے آگ لگائی۔ اور اس سے کہا : یہ آگ جلاؤ،اور اس میں خود کو جلادو۔ اگر تم علی کے شیعہ اور اس کے عارفین میں سے ہوں گے تو تمہیں آگ نہیں چھوئے گی۔ اور اگر تو جھوٹے مخالفین میں سے ہوگا، تو آگ تیرے گوشت کوکھالے
[1] روضۃ الکافی ۸/۷۸۔ [2] اللہ تعالیٰ نے کیسے ان کی اپنی زبان سے جاری کروادیا اس روایت میں بھی اور سابقہ میں بھی۔ [3] امالی ص: ۳۰۱-۳۰۲۔