کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 466
اللہ تعالیٰ کی یہ مغفرت اورر حمت شیعہ کے لیے خاص ہے؛ جب کہ باقی لوگوں کی کوئی مغفرت نہیں ہوگی، جیسا کہ ان کی روایات میں صراحت موجودہے۔
برقی نے حارث بن مغیرہ سے روایت کیا ہے، وہ کہتا ہے: ’’میں ابو عبد اللہ علیہ السلام کے پاس تھا ان پر ایک داخل ہونے والا داخل ہوا ؛ اور اس نے کہا : اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحب زادے ! اس سال کتنے ہی زیادہ حاجی تھے۔ تو آپ نے کہا:
’’اگروہ چاہیں تو زیادہ ہو جائیں ؛ اور اگر چاہیں تو کم ہوجائیں۔اللہ کی قسم ! اللہ تعالیٰ تمہارے سوا کسی سے قبول نہیں کرے گا اور تمہارے علاوہ کسی کی بھی مغفرت نہیں کرے گا۔‘‘[1]
نیز مجلسی نے ابو جعفر سے روایت کیا ہے، انہوں نے کہا: ’’اللہ تعالیٰ ہمارے اور ہمارے شیعہ کے علاوہ ہر گزکسی کی مغفرت نہیں کرے گا۔ اور بے شک ہمارے شیعہ ہی قیامت والے دن کامیابی پانے والے ہیں۔‘‘[2]
محمد علی الدخیل (ایک معاصر شیعہ عالم) روایت کرتا ہے : بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ جب قیامت کا دن ہوگا، ہمارے ذمہ ہمارے شیعہ کا حساب لگایا جائے گا، پھر جو کوئی زیادتی ان کے اور اللہ کے درمیان ہوگی؛ ہم اس کا فیصلہ کریں گے، اور ہماری بات مانی جائے گی۔ اور جو زیادتی اس کے اور لوگوں کے مابین ہوگی ہم اس کا ہبہ مانگیں گے،وہ ہمیں ہبہ کردی جائیں گی۔ اور جو اس کے اور ہمارے مابین ہوگی ہم اس کے زیادہ حق دار ہیں کہ اسے معاف کردیں اور اس سے در گزر کرلیں ‘۔‘[3]
جب کہ جہنم کے بارے میں ان کا اعتقاد ہے کہ شیعہ میں سے ایک انسان بھی جہنم میں نہیں جائے گا۔ کلینی نے اپنی سند سے میسر سے نقل کیا ہے، وہ کہتا ہے:
’’ میں ابو عبد اللہ علیہ السلام پر داخل ہوا، تو انہوں نے پوچھا : تمہارے ساتھی کیسے ہیں ؟ میں نے کہا: میں آپ پر قربان جاؤں ! ہم ان کے نزدیک یہود و نصاریٰ و مجوس اور مشرکین سے بھی بدتر ہیں۔ آپ تکیہ لگائے ہوئے تھے، سیدھے ہوکر بیٹھ گئے ؛ پھر کہا: ’’ تم نے کیا کہا ؟میں نے کہا؟ ہم ان کے نزدیک یہود و نصاریٰ و مجوس اور مشرکین سے بھی بدتر ہیں۔توآپ نے کہا: اللہ کی قسم ! تم میں سے دو آدمی بھی جہنم میں نہیں جائیں گے نہیں، بلکہ اللہ کی قسم ! تمہارا ایک آدمی بھی جہنم میں نہیں جائے گا؛ اللہ کی قسم تم ہی وہ لوگ ہو جن کے متعلق اللہ کا فرمان ہے :
﴿وَقَالُوْا مَا لَنَا لَا نَرَیٰ رِجَالاً کُنَّا نَعُدُّہُم مِّنَ الْأَشْرَارِo أَتَّخَذْنَاہُمْ سِخْرِیّاً أَمْ زَاغَتْ
[1] تفسیر فرات الکوفی ص: ۱۵۰۔
[2] امالی للصدوق : ص: ۲۳۔ اور بحار الأنوار ۶۸/ ۷۔
[3] روضۃ الکافی ۸/ ۳۰۴۔
[4] ان کے عقائد پڑھنے کے بعد اس بات کا یقین ہوجاتا ہے کہ احکام شریعت ساقط ہوں یا نہ ہوں ، مگر ان سے قلم ضرور اٹھالیے گئے ہیں ؛ اور یہ لوگ مرفوع القلم ہیں اگر عقل ہوتی تو ایسی باتیں نہ کرتے۔
[5] الکشکول ۱/۱۵۱؛ مسند الإمام رضا ص: ۲۳۷۔