کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 464
’’ بے شک اللہ تعالیٰ نے اپنے علم سے شیعہ کو ہمارے لیے چن لیا ہے اورانہیں ہماری مٹی سے پیدا کیا ہے۔ اور ان میں ہمارے حکم کو ودیعت کردیا ؛ اور ان کے دلوں پر ہماری معرفت کے حق کو لازم کردیا اور ان کے سینے کھول دیے اور انہیں ہماری رسی کو مضبوطی سے پکڑنے والے بنادیا۔ …اور باقی لوگ گمراہیوں کی وادی میں بھٹک رہے ہیں، وہ حجت سے؛ اور جو کچھ اللہ کی طرف سے آیا ہے،[اس] سے اندھے ہوچکے ہیں ؛ اور وہ اللہ کی ناراضگی میں صبح شام کرتے ہیں۔‘‘[1] حتی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق گمان کرتے ہیں کہ آپ کا انتقال ہوا، اور آپ شیعہ کے علاوہ باقی لوگوں پر ناراض تھے۔ صدوق نے روایت کیا ہے؛ بے شک حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے فرمایاہے : ’’ تمہیں خوشخبری ہو ؛ اور لوگوں کو بشارت دو ؛ یقیناً جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا آپ اپنی امت سے ناراض تھے ؛ سوائے شیعہ کے۔‘‘[2] اور رافضیوں کی بدگمانیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے لیے خاص کرلیا ہے ؛ اور ان کا یہ دعویٰ کہ اللہ تعالیٰ نیک اعمال اور عبادات کو سوائے شیعہ کے کسی سے بھی قبول نہیں فرماتے۔ یہ اللہ رب العالمین پرجھوٹ کی انتہا ہے۔ امالی میں طوسی نے معاذ بن کثیر سے روایت کیا ہے، وہ کہتا ہے : ’’ میں نے اہل موقف [میدان ِحشر ] کی طرف دیکھا، تو وہ بہت زیادہ تھے۔ پھر میں ابو عبداللہ علیہ السلام کے قریب ہوا ؛ او ران سے کہا : بے شک موقف والے تو بہت زیادہ ہیں۔ کہتا ہے: انہوں نے ان پر ایک نگاہ دوڑائی ؛ اور ان میں جو کچھ تھا جان لیا۔ پھر کہا : ’’اے ابو عبداللہ میرے قریب ہوجاؤ۔ پس میں ان کے قریب ہوا، تو کہا : ’’جھاگ ہیں، جنہیں ہر طرف سے موجیں لے کر آتی ہیں۔ نہیں اللہ کی قسم ! تمہارے سوا کسی کا کوئی حج نہیں، اورنہ ہی اللہ تعالیٰ تمہارے علاوہ کسی کا کوئی عمل قبول کریں گے۔‘‘[3] فرات الکوفی نے محمد بن حنفیہ سے روایت کیا ہے: بے شک ایک دن آپ اپنے ساتھیوں کی طرف نکلے، اوروہ آپ کا انتظار کررہے تھے۔ تو انہوں نے کہا: ’’ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے لیے خوشخبری قبول کرو اور اللہ کی قسم ! تمہارے علاوہ کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہے جسے اللہ کی طرف سے خوشخبری ملتی ہو۔ … یہاں تک کہ انہوں نے کہا: ’’کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہوکہ تمہاری نماز قبول ہو، اور ان کی نماز قبول نہ ہو۔ اور تمہارا حج قبول ہو، اور ان کا حج قبول نہ ہو۔
[1] تفسیر فرات الکوفي ص: ۹۵۔ [2] أصول الکافی ۱/ ۴۰۸۔