کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 460
اور اسی کتاب میں ابو عبد اللہ سے روایت ہے،بے شک انہوں نے کہاہے: ’’ اللہ تعالیٰ نے ہمارے شیعہ کو خزانے میں رکھی ہوئی مٹی سے پیدا کیا ہے۔ قیامت کے دن تک نہ ہی کوئی باہر نکلنے والا اس سے باہر نکل سکتا ہے، اور نہ ہی کوئی اندر آنے والا داخل ہوسکتا ہے۔‘‘[1] جب کہ مفید نے امام صادق سے روایت کیا ہے، آپ فرماتے ہیں : ’’ بے شک اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی عظمت کے نور سے پیدا کیا اور ہمیں اپنی رحمت سے بنایا اور تمہاری روحیں ہم سے پیدا کیں۔ پس ہم تمہاری طرف جاتے ہیں، اورتم ہماری طرف آتے ہو۔ اور اللہ کی قسم ! اگر سارے اہل مشرق و اہل مغرب مل کر کوشش کریں کہ ہمارے شیعہ میں وہ ایک آدمی زیادہ کردیں، یا کم کردیں ؛ تو وہ اس پر قادر نہیں ہوں گے۔ اوربے شک وہ (شیعہ) ہمارے پاس ان کے ناموں کے ساتھ اور ان کے والدین کے ناموں، اور نسب و قبیلہ کے ساتھ لکھے ہوئے ہیں۔‘‘ [2] ان روایات میں صریح طور پر کہاگیاہے کہ بے شک رافضی اپنی اصلی [ابتدائی ] تخلیق؛ اور اپنی مٹی کے مادہ میں باقی تمام بشریت سے جدا ہیں ؛ جس کے بارے میں گمان کرتے ہیں کہ وہ[مٹی ] اللہ تعالیٰ کی عظمت کے نور سے پیدا کی گئی ہے، اس لیے وہ نہ ہی زیادہ ہوں گے اور نہ ہی کم۔ اور وہ اپنے ائمہ کے ہاں معروف ہیں، اور ان کے نام ان [ائمہ ] کے ہاں لکھے ہوئے ہیں ؛ جس میں ان کے علاوہ کوئی ایک داخل نہیں ہوسکتا۔ پھر جب رافضیوں نے یہ جھوٹا دعویٰ کیاتو اس کے بعد وہ اپنی دروغ گوئی اور جھوٹے دعووں میں بڑھتے ہی چلے گئے۔ یہاں تک کہ گمان کرنے لگے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے خوا ص میں سے ہیں، اور اس کی مخلوق میں سے چنے ہوئے لوگ ہیں۔ اورپھر اپنے دعویٰ کی تائید میں یہ روایات گھڑیں ؛ جن کو بہتان تراشتے ہوئے، اور جھوٹ بولتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اورائمہ اہل ِ بیت کی طرف منسوب کیا۔ عیاشی نے اپنی تفسیر میں عبد الرحمن بن کثیر سے روایت کیا ہے کہ ابو عبد اللہ علیہ السلام نے اس سے کہا: ’’اے عبد الرحمن! اللہ کی قسم ! ہمارے شیعہ [کے] گناہ اور خطائیں ختم نہیں ہوں گی ؛ مگر وہ اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ قوم رہیں گے جنہیں اس نے اپنے دین کے لیے چن لیا ہے۔ ‘‘[3] طوسی کی ’’امالی ‘‘ میں جعفر بن محمد علیہما السلام سے روایت ہے انہوں نے کہا ہے: ’’ہم اللہ کی بہترین مخلوق ہیں اور ہمارے شیعہ اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے بہترین لوگ ہیں۔‘‘[4]
[1] بصائر الدرجات ص: ۷۰۔ بحار الأنوار ۶۷/ ۷۴۔ [2] اصول الکافی ۱/ ۳۸۹۔ اس روایت کو صفار نے بصائر الدرجات : ص ۴۰ میں نقل کیا ہے ؛ اور مجلسي نے بحار الأنوار میں ۲۵/ ۱۲پر ؛ اور نعمت اللہ الجزائری نے الأنوار النعمانیۃ میں ۱/ ۲۹۰ پر نقل کیا ہے ؛ لیکن اس نے اسے صداق کی طرف منسوب کیا ہے۔ [3] المحاسن از برقی ص: ۱۳۱۔