کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 46
مشغول ہیں، اور وہ مدینہ میں کوئی فتنہ پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے اور مسلمانوں کے درمیان موجود نا چاکی کا اندیشہ محسوس ہوا۔[1]
سو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لے گئے، اور انہیں بنی قینقاع کے بازار میں جمع کیا ؛اور فرمایا:
’’ اللہ تعالیٰ سے ڈرو کہ تمہارے ساتھ بھی ایسا ہی معاملہ پیش آئے جیسا کہ قریش مکہ کے ساتھ پیش آیا۔ اور اسلام لے آؤ ؛ تم جانتے ہو کہ میں اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں۔ یہ تم اپنی کتابوں میں پاتے ہو؛ اور اس کا اللہ تعالیٰ نے تم سے عہد لیا ہے۔ ‘‘
اس پر یہود کہنے لگے:
’’اے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) ! آپ سمجھتے ہیں کہ ہم بھی آپ کی قوم ہیں ؟ یہ بات آپ کو دھوکا میں نہ رکھے کہ آپ کا ٹکراؤ ایک ایسی قوم سے ہوا ہے جنہیں جنگ سے کوئی واقفیت نہیں تھی۔ تو آپ کو ان پر غلبہ کا موقع مل گیا؛ اور اللہ کی قسم ! اگر ہم آپ سے جنگ کریں گے تو آپ کو معلوم ہوجائے گاکہ ہم مردان ِ میدان ہیں۔‘‘[2]
پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لشکر لے کر ان کی طرف روانہ ہوئے ؛اور ان کے قلعوں میں ان کا محاصرہ کرلیا۔ پندرہ دن تک بہت سخت محاصرہ رہا۔ ان میں سے کوئی بھی باہر نہ نکلتا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر قلعوں سے نیچے اتر آئے؛اور انہیں باندھ دیا گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو قتل کرنا چاہتے تھے۔ عبد اللہ بن ابی بن سلول کھڑا ہوا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ان کی سفارش کی۔[3] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ قیدی اسے ہبہ کردیے۔ ان کی رسیاں کھول دی گئیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی جلاوطنی کا حکم دے دیا۔ ان کے اموال کو اللہ تعالیٰ نے غنیمت میں مسلمانوں کو دے دیا۔[4]
ثانیاً : بنو نضیر کی جلا وطنی:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام میں سے چالیس بہترین قسم کے لوگوں کو قبائل نجد کو دین اسلام کی تعلیم دینے کے لیے بھیجا، یہ لوگ حافظ قرآن تھے۔ جب یہ مدینہ طیبہ سے چار دن کے فاصلہ پر بئر معونہ[5] پر پہنچے تو بنی سلیم کے یہودیوں نے ان مسلمانوں پر دھاوا بول دیا اور انہیں انہتائی مظلومیت کی حالت میں غدر اور ظلم کے ساتھ قتل کیا۔
[1] أنظر: جواد علی :تاریخ العرب قبل الإسلام ۶/۱۳۵۔
[2] انظر :سیرۃ ابن اسحق ۳۱۳۔
[3] بنوقینقاع جاہلیت میں خزرج کے حلیف تھے۔ اس پرانے عہد ِ جاہلیت کے حلف کی وجہ سے عبد اللہ بن ابی نے ان سفارش کی۔ انظر :سیرۃ ابن اسحق ۳۱۴۔
[4] غنیمت کی یہ قسم اس کا درست قرآنی نام ’’فے ‘‘ ہے ؛یعنی وہ مال جو بغیر جنگ کے حاصل ہو؛ اورغنیمت وہ مال ہے جو لڑائی کے بعد حاصل ہو اسے عرف عام کے اعتبار سے غنیمت کہا گیاہے۔دیکھو: تاریخ الأمم والملوک للطبری ۲/۴۸۰-۴۸۱۔
[5] ابن اسحق فرماتے ہیں : بئر معونہ بنی عامر اور بنی سلیم کی بستیوں کے درمیان واقع ہے۔ یہ دونوں بستیاں اس کے قریب واقع ہیں۔ ہاں ! یہ کنواں بنی سلیم کی طرف زیادہ قریب ہے۔ معجم البلدان ۱/۳۰۲۔