کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 459
ذیل میں رافضیوں کے ان خو د ساختہ خیالات کی تفصیل پیش کی جارہی ہے، جن کے بارے میں وہ گمان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے یہی[نعمتیں ] باقی مسلمانوں کوچھوڑ کر صرف ان کے لیے خاص کی ہیں۔
ان خیالات میں سے ایک ان کا یہ گمان کرنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی روحوں کو اس مٹی سے ؛ جس سے تمام بشریت کی روحیں پیدا ہوئی ہیں ؛ہٹ کر ایک اور مٹی سے پیدا کیا ہے۔
اور ان کی مٹی کی اصل اللہ تعالیٰ کے نور سے پیدا کی گئی ہے۔ یااس مٹی سے عرش کے نیچے پردہ میں رکھی گئی ہے۔ اس کی صراحت ان روایات سے ہوتی ہے جوان کی معتمد کتابوں میں وارد ہوئی ہیں۔
’’بصائر الدرجات‘‘ میں ابوعبداللہ سے مروی ہے، اس نے کہا ہے:
’’بے شک اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے اپنے نور سے شیعہ بنائے ہیں ؛ اور ان کو اپنی رحمت کے رنگ میں رنگاہے۔اور ان سے ہماری ولایت کا عہد اس معرفت کے دن لیا جب اس نے انہیں اپنی ذات کی پہچان کروائی۔ وہ ان سے[ نیکو کاروں کی نیکیاں ] قبول کرنے والا ہے، اور ان کے خطا کاروں سے در گزر کرنے والا ہے۔ اور جوکوئی اللہ سے اس راہ پر نہیں ملے گا جس پر وہ [قائم] ہیں، اللہ تعالیٰ اس کی ایک نیکی بھی قبول نہیں کریں گے۔ اوراس کی ایک غلطی بھی معاف نہیں کریں گے۔‘‘[1]
اور کلینی نے ابو عبد اللہ سے روایت کیا ہے، بے شک آپ نے کہا ہے :
’’اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی عظمت کے نور سے پیدا کیا ہے، پھر ہماری صورتیں اس مٹی سے بنائیں جو اس کے عرش کے نیچے چھپے ہوئے خزانے میں ہے۔ اور پھر اس نور کو اس میں سکونت دی۔ پس ہم نورانی مخلوق اور بشر ہوئے۔ اورجس سے ہم پیدا کیے گئے ہیں ؛ کسی ایک کے لیے بھی اس میں کوئی نصیب نہیں رکھا گیا۔ اورہمارے شیعوں کی روحیں ہماری مٹی سے پیدا کی گئیں۔اور ان کے بدن اس مٹی [جس سے ائمہ پیدا کیے گئے] سے نیچے خزانے میں رکھی ہوئی پوشیدہ مٹی سے پیدا کیے گئے۔ اورجس مٹی میں ان کوپیدا کیا گیا ؛ اس میں انبیاء کے علاوہ کسی کے لیے کوئی حصہ نہیں رکھا گیا۔ اس وجہ سے ہم اور وہ [یعنی شیعہ ] انسان ہوئے، اور باقی لوگ جہنم کے چرواہے، اور جہنم ہی کی طرف لوٹ کر جائیں گے۔‘‘[2]
اورمحاسن میں ابو جعفر سے مروی ہے، انہوں نے کہا ہے :
’’ بے شک اللہ تعالیٰ نے مومن [شیعہ ] میں اللہ کی روح میں سے ریح [ہوا] جاری کر دی ہے۔‘‘[3]
[1] الکنز المرصود ص: ۶۲۔ اسرائیل و تلمود ص: ۶۷۔