کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 454
موآبی[1] بھی دسویں نسل آنے تک رب کی جماعت میں داخل نہیں ہوسکتے، ان میں سے کوئی ایک بھی رب کی جماعت میں کبھی بھی نہیں داخل ہوسکتا۔‘‘[2]
یہود کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ساری بشریت سے امتیازی حیثیت دی ہے ؛ان کی روحیں اور مادۂ تخلیق اسی [یعنی اللہ تعالیٰ ] سے لیے گئے ہیں۔ ان کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں باقی تمام لوگوں پر سے جداگانہ حیثیت دی ہے، تمام دنیاوی اور اخروی احکام و تشریعات میں۔
ان عقائد میں سے یہ عقیدہ بھی ہے کہ اگر یہودی نہ ہوتے تو اللہ تعالیٰ اس کائنات کو نہ پیدا کرتے۔ اور جو کچھ اس کائنات میں ہے وہ یہودیوں کی ملکیت ہے اور ان کی خدمت کے لیے مسخر کیا گیا ہے۔
تلمود میں آیا ہے : ’’ اگر اللہ تعالیٰ یہود کو نہ پیدا کرتے تو زمین سے برکت معدوم ہوجاتی۔ اور بارشیں اور پیدانہ کیے گئے ہو تے۔‘‘[3]
تلمود میں ہی ہے: ’’رائیین [عقلاء]کے ہاں ثابت شدہ حقیقت یہ ہے کہ بے شک یہودی کے لیے ممکن ہے کہ کوئی بھی ایسی چیز لے لے جو عیسائیوں کے لیے خاص ہو؛ خواہ اس کا کوئی بھی سبب ہو،حتی کہ اچک (چھین) کر بھی۔ [لے سکتا ہے] اور اس عمل کو چوری نہیں سمجھا جا سکتا ؛ اس لیے کہ اس [یہودی ] نے اپنے لیے مختص چیز کے علاوہ کچھ بھی نہیں لیا۔‘‘[4]
اور اس میں یہ بھی آیا ہے :
’’اوروہ تمام چیزیں جو غویم [غیر یہود] کے لیے خاص ہیں ؛ وہ ایک صحراء کی مانند ہیں، اور جو بھی انسان[یہودی ]اس پر پہلے قبضہ کرلے ؛وہ اس پر اپنی ملکیت ہونے کا دعویٰ کر سکتا ہے۔‘‘[5]
ان کا ایک درویش کہتا ہے: ’’بے شک عیسائیوں کی ممتلکات [ملکیت کی چیزیں ] کو اگر یہودیوں کی نظر سے دیکھا جائے ؛ تویہ ایسی چیزیں ہیں جن کا کوئی مالک نہیں۔ سمندر کی ریت کی طرح ہیں۔ اور پہلا یہودی جو ان پر زبردستی غلبہ پالے یہ اسی کی ملکیت ہوں گی۔‘‘[6]
آج کل کے [معاصر] یہودی بھی اس عقیدہ میں اپنے اسلاف کے ساتھ شریک ہیں۔ صہیونی دانشوروں کی [کتاب ]’’پروٹوکولز۔‘‘ میں آیا ہے :
’’بے شک ہم انبیاء کرام کی شریعتوں میں پڑھتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کی چنی ہوئی قوم ہیں تاکہ ہم زمین پر حکومت کریں۔ اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں صلاحیت[قوت ] دی ہے کہ اس کا قیام عمل میں لاسکیں۔‘‘[7]
[1] اصحاح ۳۴؛ فقرات (۱-۳)۔
[2] سفر تثنیہ ؛ اصحاح ۷ کے فقرات ’’۱-۲۔‘‘
[3] عمونی قوم بنی اسرائیل کے دشمن تھے۔ اور مشرقی اردن کے رہنے والے تھے۔ ان کا بڑا شہر ’’ربۃ بنی عمون‘‘ تھا : دیکھو: القاموس الموجز لکتاب المقدس ؛ ص/ ۴۹۲۔