کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 452
’’ جب بنی اسرائیل غلام تھے میں نے ان سے محبت کی اور مصر سے میں نے ان کو بیٹا پکارا۔‘‘[1]
اور سفر اشعیا میں اللہ تعالیٰ سے یہ کہتے ہوئے مخاطب ہوتے ہیں :
’’بے شک تو ہمارا باپ ہے ؛ اگر ابراہیم نے ہمیں نہیں پہچانا؛ اور اسرائیل بھی اس کا ادراک نہیں کرسکا ؛ اے رب! تو ہمارا باپ ہے، ہمارا ولی ہے ابد سے تیرا نام۔‘‘[2]
اور تلمود میں یوں آیا ہے: ’’ اور [اللہ ] وہ ذات ہے جس نے ہر زندہ چیز کو پیدا کیا ؛ یعنی بنی اسرائیل کو پیدا کیا، اس لیے کہ وہ عظمت والے رب کے بیٹے ہیں اور اس سے ان کی روحیں پھوٹی ہیں۔‘‘[3]
اور تلمود میں یہ بھی ہے :
’’یہودیوں کی روحیں باقی ارواح سے اس لحاظ سے جداگانہ حیثیت رکھتی ہیں کہ ان کی روحیں اللہ تعالیٰ کاجز ہیں ؛ جیسا کہ بیٹا والد کا جز [حصہ] ہوا کرتاہے۔‘‘[4]
جب کہ ان کا یہ دعویٰ کہ اللہ ان سے محبت کرتا ہے، یقیناً اس کے بارے میں وہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ حضرت داؤد علیہ السلام سے یہ کہتے ہوئے خطاب کیا تھا:
’’ اور چاہیے کہ تیرا معبود رب مبارک ہو، وہ جو تجھ سے خوش ہوا، اور تجھے بنی اسرائیل کی کرسی [حکومت ] پر فائز کیا، اس لیے کہ رب نے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بنی اسرائیل سے محبت کرلی ہے۔ اور تجھے بادشاہ بنایا ہے تاکہ تو حاکم اور نیک رہے۔‘‘[5]
پس یہودیوں کا اپنی ذات کے متعلق یہ دعویٰ ہے کہ وہ اللہ کے پیارے اور اس کے بیٹے ہیں،اور وہ اکثر اس عبارت کو دہراتے رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ اس کی وجہ سے انہوں نے لوگوں کو یہ وہم دلانے کی کوشش کی کہ ان کا عنصر بشری عنصر سے علاوہ ہے تاکہ اس طرح وہ لوگوں سے اپنے تقدیس کرواسکیں۔ اگرچہ ایسا اللہ تعالیٰ پر [جھوٹ باندھ کر ہی ]کیوں نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کے اس دعویٰ کو قرآن میں ذکرکیا ہے،اور اسے باطل قرار دیا ہے،اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وَقَالَتِ الْیَہُودُ وَالنَّصَارَی نَحْنُ أَبْنَائُ اللّٰہِ وَأَحِبَّاؤُہُ قُلْ فَلِمَ یُعَذِّبُکُمْ بِذُنُوبِکُمْ بَلْ أَنْتُم بَشَرٌ مِّمَّنْ خَلَقَ یَغْفِرُ لِمَن یَّشَائُ وَیُعَذِّبُ مَن یَّشَائُ وَلِلّٰہِ مُلْکُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَیْْنَہُمَا وَإِلَیْْہِ الْمَصِیْرُo﴾ (المائدہ: ۱۸)
’’ اور یہود اور نصاریٰ کہتے ہیں کہ ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے پیارے ہیں کہو کہ پھر وہ تمہاری بد اعمالیوں
[1] اصحاح ۲۷؛ فقرہ ۹۔
[2] اصحاح ۷؛ فقرہ ۶۔
[3] سفر الخروج اصحاح ۱۹ فقرات ۵-۶۔