کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 451
پہلی بحث :… یہود کی اپنے نفس کی تقدیس
یہودی دعویٰ کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں چن لیا ہے، اورانہیں سارے لوگوں پر فضیلت دی ہے۔ اورانہیں روئے زمین کی باقی اقوام سے امتیازی حیثیت دی ہے اور انہیں اپنی پسندیدہ قوم بنایا ہے۔
سفر تثنیہ میں آیا ہے :
’’پھر موسیٰ اور لاویین کاہنوں اور تمام اسرائیل نے یہ کہتے ہوئے کلام کیا: خاموش ہوجا اور سن اے اسرائیل ! آج تم اپنے معبود رب کی قوم ہوگئے ہو۔‘‘[1]
اور سفر تثنیہ میں ہی ہے:
’’بے شک اس لیے کہ تم اپنے معبود رب کی مقدس قوم ہو؛ اور تمہیں ہی تمہارے معبود رب نے چن لیا ہے ؛ تاکہ تم روئے زمین کی تمام اقوام میں سے اس کی خاص قوم بن جاؤ۔‘‘[2]
اور (ان کے گمان کے مطابق) اللہ تعالیٰ کے بنی اسرائیل سے خطاب میں ہے :
’’ اور اب اگر تم میں آواز کو سنو گے،اور میرے عہد کی حفاظت کروگے، تو تم تمام قوموں میں سے میرے لیے خاص ہوجاؤ گے۔ سو بے شک تمام زمین میرے لیے ہے۔ اور تم میرے لیے ایک کاہن مملکت اور مقدس امت ہوجاؤ گے۔‘‘[3]
یہ یہودیوں کا اپنی ذات کے متعلق اعتقاد ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی چنیدہ [پسندیدہ ] قوم ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ نے ان کو چن لیا ہے، اور انہیں باقی امتوں میں امتیازی حیثیت دی ہے، اور انہیں تمام امتوں میں سے اپنے خواص بنایا ہے۔
یہاں سے یہودیوں کا اپنے نفس کی تقدیس کا عقیدہ پیدا ہوتا ہے، پھر کئی طریقوں سے اس عقیدہ کی طرف دعوت دینے لگے۔ ان بہت ساری نصوص کے ذریعہ سے جو کہ ان کی مقدس کتابوں میں بکھری ہوئی ہیں،جو ہر چیز میں باقی امتوں سے ان کے جدا اور ممتاز ہونے کا دعویٰ کرتی ہیں یہاں تک کہ ان کی پہلی پیدائش کے اصل میں بھی۔ اور یہیں سے وہ گمان کرنے لگتے ہیں کہ وہ اللہ کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہیں۔ اور یہ کہ ان کی روحیں اللہ تعالیٰ کی روح کا جز ہیں۔ (اللہ تعالیٰ اس سے بہت بلند ہے۔)
سفر ہوشع میں آیا ہے، اللہ تعالیٰ نے ان سے یہ کہتے ہوئے خطاب کیا :