کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 449
واجب ہوتاہے کہ وہ اس کو ادب سکھائے اوراسے سزادے۔ حاکم کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اس انسان کو معاف کردے، بلکہ اسے سزا دے اور اس سے توبہ کروائے۔ اگرتوبہ کرلے تو اس کی توبہ کو مان لیا جائے اور اگر اپنے اسی فعل پر قائم رہے تو اسے دوبارہ سزا دے ؛ اور اسے عمر قید کی سزا دے؛ یہاں تک کہ وہ یاتو مر جائے یا اپنے اس فعل سے توبہ کرلے۔‘‘[1]
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو گالی دینے کے حرام ہونے پر یہ ان اہل علم کا اجماع ہے ؛ جن کے اقوال پر مسلمانوں میں اعتماد کیا جاتا ہے ؛ اور جوکوئی صحابہ میں سے کسی ایک کی شان میں کلام کرے، اس کے متعلق حکم ہے کہ بے شک وہ مبتدع ہے، اور حاکم پر واجب ہوتا ہے کہ وہ اسے ادب سکھائے اور سزا دے۔ اسے عمر بھر کے لیے قید کردے ؛ یہاں تک کہ وہ یاتو مر جائے یا اپنے اس فعل سے توبہ کرلے۔‘‘
نیز ایسے ہی ان علماء کرام کا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے سارے صحابہ سے افضل ہونے پر اتفاق و اجماع ہے، پھران کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہیں ؛پھر حضرت عثمان اور پھر حضرت علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہم اجمعین۔
اس سے رافضیوں کی خلفاء راشدین پر طعنہ زنی کا باطل ہونا ثابت ہوتا ہے، اس لیے کہ ان کے ائمہ جن کے معصو م ہونے کا وہ اعتقاد رکھتے ہیں، وہ بھی دوسرے علماء مسلمین کی طرح اس اجماع میں داخل ہیں۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے متعلق اہلِ سنت کا عقیدہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’اوروہ اس تواتر کا اقرار کرتے ہیں جو کہ حضرت علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ سے اور ان کے علاوہ باقی لوگوں سے روایت کیا گیا ہے، کہ بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس امت کے سب سے بہترین آدمی حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ہیں، پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور پھر تیسرے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور چوتھے حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں جیسا کہ آثار[صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے اقوال ] اس پر دلالت کرتے ہیں، اور جیسا کہ اس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا بیعت میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو مقدم کرنے پر اجماع ہواہے۔ ‘‘[2]
****
[1] الصارم المسلول علی شاتم الرسول ص: ۵۶۸۔
[2] طبقات الحنابلۃ لقاضي ابن أبي یعلی الحنبلی ۱/ ۲۴۔