کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 445
اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿یَعِظُکُمُ اللّٰہُ أَن تَعُوْدُوْا لِمِثْلِہِ أَبَدًا إِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ﴾ (النور:۱۷) ’’ اللہ تمہیں نصیحت کرتا ہے کہ اگر مومن ہو تو پھر کبھی ایسا (کام) نہ کرنا۔‘‘ اور رافضی نے بار بار ایسے ہی کیا ہے [فحاشی کا الزام لگایا ہے ] پس وہ مؤمن نہیں ہیں۔ امہات المومنین رضی اللہ عنہن پر طعن کی وجہ سے قرآن کی یہ دوآیات رافضیوں سے ایمان کی نفی پر گواہ ہیں۔ واللہ اعلم اور ایسے ہی امہات المومنین رضی اللہ عنہن پر طعنہ زنی کرنا خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی پر طعن ہے۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ابو سائب قاضی سے روایت کرتے ہیں انہوں نے فرمایا: ’’ایک دن میں حضرت حسن بن زید طبرستان کے علاقہ کے داعی کی مجلس میں تھا؛ آپ اونی لباس پہنتے تھے، اور لوگوں کو بھلائی کا حکم دیتے اور برائی سے منع کرتے تھے۔ اور سالانہ بیس ہزار دینار بغداد بھیجا کرتے جو تمام صحابہ کی اولاد میں تقسیم کیا جاتا۔ آپ کی مجلس میں ایک آدمی تھا ؛ اس نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے متعلق فحاشی کا ذکر کیا۔ آپ نے فرمایا : اے نوجوان! اس کی گردن ماردے۔ اس پر [محفل میں موجود ] علوی کہنے لگے : ’’ یہ آدمی تو ہمارے شیعوں میں سے ہے۔‘‘ تو آپ نے فرمایا: معاذ اللہ ! یہ انسان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر طعنہ زنی کرتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿الْخَبِیْثَاتُ لِلْخَبِیْثِیْنَ وَالْخَبِیْثُونَ لِلْخَبِیْثَاتِ وَالطَّیِّبَاتُ لِلطَّیِّبِیْنَ وَالطَّیِّبُوْنَ لِلطَّیِّبَاتِ أُوْلٰٓئِکَ مُبَرَّؤُنَ مِمَّا یَقُوْلُوْنَ لَہُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَرِزْقٌ کَرِیْمٌ ﴾ (النور:۲۶) ’’ ناپاک عورتیں ناپاک مردوں کے لیے اور ناپاک مرد ناپاک عورتوں کے لیے اور پاک عورتیں پاک مردوں کے لیے اور پاک مرد پاک عورتوں کے لیے یہ (پاک لوگ) ان (بدگویوں ) کی باتوں سے بَری ہیں (اور) ان کے لیے بخشش اور نیک روزی ہے۔‘‘ اگر عائشہ (معاذ اللہ) خبیث تھی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی خبیث ہوئے، (معاذ اللہ) سو یہ انسان کافر ہے، اس کی گردن ماردو۔ پس اس کی گردن مار دی گئی اور میں وہاں موجود تھا۔‘‘[1] باقی رہے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ؛ تو قرآن و سنت میں ہر اس الزام سے ان کی براء ت آئی ہے جو کہ رافضی معلون ان پر تھوپتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ نے قرآن ِ کریم میں کئی ایک مواقع پر ان صحابہ کی وہ تعریف اور ثنا بیان کی ہے جس کے وہ اہل تھے۔ اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو گالی دینے کی حرمت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی واضح الفاظ میں منقول ہے۔ اور یہ کہ ان کی شان میں کمی کرنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کمی کرناہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :