کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 444
اپنے پروردگار کے کلام اوراس کی کتابوں کو برحق سمجھتی تھیں اور فرمانبرداروں میں سے تھیں۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ وَالَّتِیْ أَحْصَنَتْ فَرْجَہَا فَنَفَخْنَا فِیْہَا مِنْ رُّوْحِنَا وَجَعَلْنَاہَا وَابْنَہَا آیَۃً لِّلْعَالَمِیْنَ﴾ (الانبیاء:۹۱) ’’اور ان (مریم) کو (بھی یاد کرو) جنہوں نے اپنی عفت و عصمت کو محفوظ رکھا تو ہم نے اُن میں اپنی رُوح پھونک دی اور اُن کو اور اُن کے بیٹے کو اہلِ عالم کے لیے نشانی بنا دیا۔‘‘ یہ آیات حضرت مریم اور ان کے بیٹے کی یہودی کی جانب سے منسوب کردہ الزامات و افتراء ت سے براء ت کی بہت بڑی دلیل ہے۔ جب عائشہ رضی اللہ عنہا اور حفصہ رضی اللہ عنہا اور باقی ساری ازواج مطہرات رضی اللہ عنہم اجمعین کی اللہ تعالیٰ نے اپنی مقدس کتاب میں تعریف کی ہے، اور انہیں امہات المومنین کا خطاب عطا کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿اَلنَّبِیُّ أَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ أَنفُسِہِمْ وَأَزْوَاجُہُ أُمَّہَاتُہُمْ ﴾ (الاحزاب:۶) ’’پیغمبر مومنوں پر اُن کی جانوں سے بھی زیادہ حق رکھتے ہیں اور پیغمبر کی بیویاں اُن کی مائیں ہیں۔‘‘ پس جب رافضی ان امہات المومنین پر طعن کرتے ہیں،فقط ان کے طعن کرنے سے ہی وہ مومنین کے گروہ[اہل ِ ایمان ]سے خارج ہوجاتے ہیں۔ اس لیے کہ اگر وہ مومن ہوتے،تو قرآنی حکم کے مطابق یہ ان کی مائیں ہوتیں۔ اور اگر یہ ان کی مائیں ہوتیں تو کبھی بھی ان پر ایسے طعنے نہ کستے۔ کوئی بھی ایسا عقل مند نہیں پایا جاتا جو اپنی ماں پر طعنہ زنی کرتا ہو، اس پر تمام عقلاء کا اتفاق ہے، پس یہ دلیل ہے کہ یہ لوگ مومن نہیں ہیں۔ یہاں ایک دوسری دلیل بھی ہے جو ان لوگوں سے اسلام کے منفی ہونے پر دلالت کرتی ہے۔ وہ یہ ہے کہ یہ لوگ [ام المومنین سیدہ طاہرہ صدیقہ بنت صدیق ]حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر طعنہ زنی کرتے ہیں۔ اوران پر بدکاری کا الزام لگاتے ہیں جب کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مقدس کتاب میں ان کی براء ت نازل کی ہے۔ فرمایا : ﴿ اِنَّ الَّذِیْنَ جَاؤُوْا بِالْإِفْکِ عُصْبَۃٌ مِّنْکُمْ لَا تَحْسَبُوْہُ شَرّاً لَّکُمْ بَلْ ہُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ لِکُلِّ امْرِئٍ مِّنْہُمْ مَّا اکْتَسَبَ مِنَ الْإِثْمِ وَالَّذِیْ تَوَلّٰی کِبْرَہُ مِنْہُمْ لَہُ عَذَابٌ عَظِیْمٌ ﴾ (النور:۱۱) ’’جن لوگوں نے بہتان باندھا ہے تم ہی میں سے ایک جماعت ہے اس کو اپنے حق میں بُرا نہ سمجھنا بلکہ وہ تمہارے لیے اچھا ہے ان میں سے جس شخص نے گناہ کا جتنا حصہ لیا اس کے لیے اتنا وبال ہے اور جس نے ان میں سے اس بہتان کا بڑا بوجھ اٹھایا ہے ا س کو بڑا عذاب ہو گا۔‘‘