کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 443
’’ اور ہم نے داؤد کوسلیمان عطا کیے بہت خوب بندے (تھے اور) وہ (اللہ کی طرف) رجوع کرنے والے تھے۔جب ان کے سامنے شام کو خاصے کے گھوڑے پیش کیے گئے۔ توکہنے لگے کہ میں نے اپنے پروردگار کی یاد سے ( غافل ہو کر) مال کی محبت اختیار کی یہاں تک کہ (آفتاب) پردے میں چھپ گیا۔ (بولے کہ) ان کو میرے پاس واپس لے آؤ، پھر ان کی ٹانگوں اور گردنوں پر ہاتھ پھیرنے لگے۔‘‘ یہی سلیمان علیہ السلام ہیں جن پر الزام لگاتے ہیں کہ ایک عیش پرست بادشاہ تھے؛ اور ان کی تمام تر ترجیح نفسی لذتوں کی پیروی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی دروغ گوئی کو باطل کیا،اور اصلی صورت واضح کی کہ سلیمان علیہ السلام اس دنیا سے بے رغبت اور زاہد انسان تھے؛ جیسے کہ قرآن کریم واضح کرتاہے ؛ تاکہ قیامت تک اللہ کے نبیوں پر یہودیوں کی افترا پروری پر گواہ رہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی والدہ ماجدہ پر بہتان تراشیوں کو اللہ تعالیٰ نے کئی مقام پر باطل قرار دیا ہے، اور ہر اس الزام سے ان دونوں کی براء ت [پاک دامنی ] پیش کی ہے جو یہودی ان پر تھوپتے ہیں۔ وہ خطرناک اور گندی تہمتیں اور بڑے جرائم [ان کی طرف منسوب کرتے ہیں ] جن پر اللہ ہی ان کوروزِ قیامت بدلہ دے گا۔ اللہ تعالیٰ عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق فرماتے ہیں : ﴿ اِنَّمَا الْمَسِیْحُ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ وَکَلِمَتُہُ أَلْقَاہَا إِلٰی مَرْیَمَ وَرُوْحٌ مِّنْہُ ﴾ (النساء:۷۱) ’’ مسیح (یعنی) مریم کے بیٹے عیسیٰ (نہ اللہ تھے اور نہ اس کے بیٹے بلکہ) اللہ کے رسول اللہ اس کا کلمۂ (بشارت) تھے جو اُس نے مریم کی طرف بھیجا تھا اور اس کی طرف سے ایک روح تھے۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿اِنَّ مَثَلَ عِیْسَی عِنْدَ اللّٰہِ کَمَثَلِ آدَمَ خَلَقَہُ مِنْ تُرَابٍ ثِمَّ قَالَ لَہُ کُنْ فَیَکُوْنُ ﴾ (آل عمران:۵۹) ’’ عیسٰی علیہ السلام کا حال اللہ کے نزدیک آدم علیہ السلام کا سا ہے کہ اُس نے (پہلے) مٹی سے اُن کا قالب بنایا پھر فرمایا کہ (انسان ) ہو جا تو وہ (انسان) ہو گئے۔‘‘ حضرت مریم کی یہودی افتراء پروریوں سے براء ت بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿وَمَرْیَمَ ابْنَتَ عِمْرَانَ الَّتِیْ أَحْصَنَتْ فَرْجَہَا فَنَفَخْنَا فِیْہِ مِن رُّوْحِنَا وَصَدَّقَتْ بِکَلِمَاتِ رَبِّہَا وَکُتُبِہِ وَکَانَتْ مِنَ الْقَانِتِیْنَ ﴾ (التحریم:۱۲) ’’ اور عمران کی بیٹی مریم جنہوں نے اپنی شرمگاہ کو محفوظ رکھا توہم نے اس میں اپنی روح پھونک دی اور وہ
[1] تفسیر ابن کثیر ۴/ ۳۳۔