کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 442
’’ اور ہمارے بندے داؤد کو یاد کرو جو صاحبِ قوت تھے (اور) بیشک وہ رجوع کرنے والے تھے۔ ہم نے پہاڑوں کو ان کے زیرِ فرمان کر دیا تھا کہ صبح و شام ان کے ساتھ اللہ کا ذکر (پاک) کرتے تھے۔ اور پرندوں کو بھی جمع رہتے تھے سب ان کے فرمانبردار تھے۔ اور ہم نے ان کی بادشاہی کو مستحکم کیا اور ان کو حکمت عطا کی اور (خصومت کی) بات کا فیصلہ۔‘‘ (سکھایا)
اور ان یہودیوں کا حضرت سلیمان علیہ السلام پر الزام لگانا کہ وہ ایک عیش پرست حکمران تھے؛ جن کی تمام تر رغبت اپنے نفس کی خواہشات پوری کرنا تھی ؛اللہ تعالیٰ نے اس تہمت کو قرآنی احکام میں باطل قرار دیا ہے ؛بلکہ اللہ تعالیٰ نے کئی ایک آیات میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق خبردی ہے کہ آپ اس دنیا سے بالکل بے رغبت تھے۔
یہ ملکہ سبا [بلقیس ] ہے، حضرت سلیمان علیہ السلام کی خدمت میں انتہائی قیمتی اور فاخرانہ تحفے بھیجتی ہے۔ تاکہ وہ ان کے اوردعوتِ اسلام کے درمیان حائل ہو جائیں۔ سلیمان علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے ہاں ثواب کی امید کو دنیا کے مال و متاع پر ترجیح دیتے ہیں [اور یہ تحائف واپس کر دیتے ہیں ]؛ اللہ تعالیٰ اس ملکہ کا قصہ بیان کرتے ہیں :
﴿وَإِنِّیْ مُرْسِلَۃٌ إِلَیْہِم بِہَدِیَّۃٍ فَنَاظِرَۃٌ بِمَ یَرْجِعُ الْمُرْسَلُوْنَ o فَلَمَّا جَآئَ سُلَیْمَانَ قَالَ أَتُمِدُّونَنِ بِمَالٍ فَمَا آتَانِیَ اللّٰہُ خَیْرٌ مِّمَّا آتَاکُمْ بَلْ أَنتُمْ بِہَدِیَّتِکُمْ تَفْرَحُوْنَ﴾
(النمل:۳۵۔۳۶)
’’ اور میں ان کی طرف کچھ تحفہ بھیجتی ہوں اور دیکھتی ہوں کہ قاصد کیا جواب لاتے ہیں۔ جب قاصد سلیمان کے پاس پہنچا تو سلیمان نے کہا کیا تم مجھے مال سے مدد دینا چاہتے ہو؟ جوکچھ اللہ نے مجھے عطا فرمایا ہے وہ اس سے بہتر ہے جو تمہیں دیا ہے حقیقت یہ ہے کہ تم ہی اپنے تحفے سے خوش ہوتے ہو گے۔‘‘
قرآن کریم اس دنیا سے حضرت سلیمان علیہ السلام کے زہد؛ اور دنیا پر آخرت کو ترجیح دینے کی ایک دوسری صورت پیش کرتا ہے ؛ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس دنیا کی زندگی میں بہت بڑا ملک عطا کیا ہوا تھا۔ [یہ وہ صورت ہے ] جب آپ نے گھوڑوں کے سر اور ٹانگیں کاٹ دیں، اس لیے کہ ان گھوڑوں کی وجہ سے آپ اللہ کی یاد سے مشغول ہوگئے تھے۔ ان گھوڑوں کی تعداد بیس ہزار تھی، جیسا کہ بعض مفسرین نے ذکر کیا ہے۔[1]
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وَوَہَبْنَا لِدَاوٗوْدَ سُلَیْمَانَ نِعْمَ الْعَبْدُ اِنَّہُ أَوَّابٌ o إِذْ عُرِضَ عَلَیْہِ بِالْعَشِیِّ الصَّافِنَاتُ الْجِیَادُ o فَقَالَ إِنِّیْ أَحْبَبْتُ حُبَّ الْخَیْرِ عَنْ ذِکْرِ رَبِّیْ حَتَّی تَوَارَتْ بِالْحِجَابِ o رُدُّوْہَا عَلَیَّ فَطَفِقَ مَسْحاً بِالسُّوقِ وَالْأَعْنَاقِ ﴾ (ص:۳۰۔۳۳)