کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 441
انہیں صراط مستقیم کی طرف ہدایت دی تھی۔یہ ایسی بات ہے جس سے یہودی خیالات اور اللہ کے نبی اور ان کی بیٹیوں پر الزامات خاک میں مل گئے ہیں۔ اللہ کے رسول حضرت ہارون علیہ السلام جن پر یہودی الزام لگاتے ہیں کہ انہوں نے بنی اسرائیل کے لیے بچھڑا بنایا، اور انہیں اس کی عبادت کرنے کا حکم دیا۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں اس تہمت سے بری قرار دیا ہے، اوریہ بتایا ہے کہ بچھڑا بنانے والا سامری تھا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿فَکَذٰلِکَ أَلْقَی السَّامِرِیُّ o فَأَخْرَجَ لَہُمْ عِجْلًا جَسَدًا لَہُ خُوَارٌ فَقَالُوْا ہَذَا إِلٰہُکُمْ وَإِلٰہُ مُوسَی فَنَسِیَ o أَفَلَا یَرَوْنَ أَلَّا یَرْجِعُ إِلَیْْہِمْ قَوْلًا وَلَا یَمْلِکُ لَہُمْ ضَرّاً وَلَا نَفْعًا o وَلَقَدْ قَالَ لَہُمْ ہَارُوْنُ مِن قَبْلُ یَا قَوْمِ اِنَّمَا فُتِنْتُمْ بِہِ وَاِنَّ رَبَّکُمُ الرَّحْمَنُ فَاتَّبِعُوْنِیْ وَأَطِیْعُوا أَمْرِیْ﴾ (طہ:۸۷۔۹۰) ’’ اور اسی طرح سامری نے ڈال دیا تو اس نے اُن کے لیے ایک بچھڑا بنا دیا (یعنی اس کا) قالب جس کی آواز گائے کی سی تھی تو لوگ کہنے لگے کہ یہی تمہارا معبود ہے اور موسیٰ کا بھی معبود ہے مگر وہ بھول گئے ہیں۔ کیا یہ لوگ نہیں دیکھتے کہ وہ ان کی کسی بات کا جواب نہیں دیتا اور نہ ان کے نقصان اور نفع کاکچھ اختیار رکھتا ہے۔ اور ہارون نے اُن سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ لوگو! اس سے صرف تمہاری آزمائش کی گئی ہے اور تمہارا رب تو اللہ ہے تو میری پیروی کرو اور میرا کہا مانو۔‘‘ جب کہ اللہ کے نبی حضرت داؤد علیہ السلام، جن پر زنا اور قتل کا الزام لگاتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے کئی آیات میں ان کی تعریف کرتے ہوئے انہیں اس الزام سے بری کیا ہے ؛ ارشاد فرمایا : ﴿وَلَقَدْ آتَیْنَا دَاوٗوْدَ مِنَّا فَضْلًا یَا جِبَالُ أَوِّبِیْ مَعَہُ وَالطَّیْرَ وَأَلَنَّا لَہُ الْحَدِیْدَ o أَنِ اعْمَلْ سَابِغَاتٍ وَقَدِّرْ فِی السَّرْدِ وَاعْمَلُوْا صَالِحاً إِنِّیْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ ﴾ (السباء:۱۰۔۱۱) ’’ اورہم نے داؤد کو اپنی طرف سے برتری بخشی تھی اے پہاڑو! ان کے ساتھ تسبیح کرو اور پرندوں کو (اُن کا مسخر کر دیا)اور اُن کے لیے ہم نے لوہے کو نرم کر دیا۔ کہ کشادہ زرہیں بناؤ اور کڑیوں کو اندازے سے جوڑو اور نیک عمل کرو، جو عمل تم کرتے ہو میں اُن کو دیکھنے والا ہوں۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿وَاذْکُرْ عَبْدَنَا دَاوٗوْدَ ذَا الْأَیْدِ اِنَّہُ أَوَّابٌ o اِنَّا سَخَّرْنَا الْجِبَالَ مَعَہُ یُسَبِّحْنَ بِالْعَشِیِّ وَالْإِشْرَاقِ o وَالطَّیْْرَ مَحْشُورَۃً کُلٌّ لَّہُ أَوَّابٌ o وَشَدَدْنَا مُلْکَہُ وَآتَیْنَاہُ الْحِکْمَۃَ وَفَصْلَ الْخِطَابِ﴾ (ص : ۱۷۔ ۲۰)