کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 438
ہیں ؟میں نے کہا : کہتے ہیں :آپ بارش کے قطروں اور ستاروں کی تعداد ؛ درختوں کے پتے ؛ اور جوکچھ سمندر میں ہے اس کا وزن؛ مٹی [کے ذروں ]کی تعداد جانتے ہیں۔‘‘توآپ نے اپنا ہاتھ آسمان کی طرف اٹھایا ؛ اور فرمایا : ’’ سبحان اللہ ! سبحان اللہ ! نہیں اللہ کی قسم ! ان امور کو اللہ تعالیٰ کے علاوہ ہر گز کوئی نہیں جانتا۔‘‘[1] کلینی نے روایت کیاہے : ’’سدیر سے مروی ہے، وہ کہتا ہے : میں، اورابوبصیر اور یحییٰ البزار اور داؤد بن کثیر ابو عبد اللہ علیہ السلام کی مجلس میں تھے، اچانک آپ ہمارے پاس تشریف لائے، آپ انتہائی غصہ میں تھے۔ جب وہ اپنی جگہ پر بیٹھ گئے ؛ تو فرمایا : ’’ ہائے تعجب ہے ان لوگوں پر جو یہ کہتے ہیں کہ ہم غیب جانتے ہیں۔اللہ کے علاوہ کوئی بھی غیب نہیں جانتا۔ میں نے ارادہ کیاتھا کہ اپنی فلاں لونڈی کوسزا دوں جو میرے ہاں سے بھاگ گئی تھی ؛ تومجھے پتہ نہیں تھا کہ وہ بستی کے کس گھر میں ہے۔‘‘[2] ائمہ اہلِ بیت، طیبین وطاہرین کے یہ اقوال ہیں ؛ جوخود رافضیوں کی کتابوں میں وارد ہوئے ہیں۔ انہوں نے کسی ایسی بات کی دعوت نہیں دی جو کچھ رافضی ان کی طرف منسوب کرتے ہیں بلکہ وہ ان [رافضیوں ] سے اوران کے جھوٹ سے براء ت کا اظہارکرتے ہیں۔ وہ تو ہمیشہ ان کے جھوٹ [اور دروغ گوئی ]اور بہتان تراشی کا شکوہ ہی کرتے رہے۔اورانہیں ان کے جھوٹ میں یہودونصاریٰ کے انبیاء پر جھوٹ بولنے سے تشبیہ دیتے رہے۔ پرسی نے امام صادق سے روایت کیا ہے، آپ نے فرمایا: ’’ غلو کرنے والے اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سب سے برے ہیں۔اللہ تعالیٰ کی عظمت کوچھوٹاکرتے ہیں، اور اللہ کے بندوں میں ربوبیت کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اللہ کی قسم ! غلو کرنے والے یہود و نصاریٰ، مجوس اور مشرکین سے بڑھ کر برے ہیں۔‘‘[3] مجلسی نے ابان بن عثمان سے روایت کیا ہے، وہ کہتاہے : میں نے ابوعبد اللہ علیہ السلام کو فرماتے ہوئے سنا : ’’ عبد اللہ بن سبا پر اللہ کی لعنت ؛ اس نے امیر المومنین کے متعلق ربوبیت کا دعویٰ کیا۔ اللہ کی قسم ! امیر المومنین اللہ تعالیٰ کے اطاعت گزار بندے تھے۔ ہلاکت ہو اس انسان کے لیے جوہم پر جھوٹ بولتا ہے۔ اورکچھ لوگ ہمارے بارے میں ایسی باتیں کہتے ہیں جوہم خود اپنے متعلق نہیں کہتے۔ ہم اللہ کی بارگاہ میں ان سے براء ت کا اظہارکرتے ہیں۔ ہم اللہ کی بارگاہ میں ان سے براء ت کا اظہار کرتے ہیں۔‘‘[4]
[1] بحار الأنوار ۲۵/ ۲۷۰۔ [2] بحار الأنوار ۲۵/ ۲۷۰۔ [3] الغارات ص: ۴۰۲۔ [4] حار الأنوار ۲۵/ ۲۸۴۔