کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 437
قرآن و سنت میں غلو سے ممانعت کے دلائل پر مستزاد خود ان ائمہ کے اقوال ہیں جن کو رافضی اپنا بڑا ماننے کا دعویٰ کرتے ہیں، جن اقوال میں ان کی شان میں غلو کرنے سے منع کیا گیا ہے، اور ہر غلو کرنے والے سے براء ت کا اظہار ہے۔ جو کہ رافضیوں کے ہاں انتہائی قابل اعتماد کتابوں میں آئے ہیں۔ مجلسی نے حضرت علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے، آپ نے فرمایا: ’’ہمارے بارے میں غلو کرنے سے بچو؛ کہوکہ ہم تربیت یافتہ بندے ہیں۔‘‘[1] ابن ہلال ثقفی نے حضرت علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے، آپ نے فرمایا: ’’ میرے بارے میں دو قسم کے لوگ ہلاک ہوں گے، محبت میں حد سے بڑھنے والا، جو میرے لیے ایسی صفات بیان کرے گا جومجھ میں نہیں ہیں۔ اوردوسرا مجھ سے بغض رکھنے والا جھوٹا: اسے میری دشمنی اس پر آمادہ کرے گی کہ وہ مجھے لاجواب کر دے۔ آگاہ ہوجاؤ ! میں نبی نہیں ہوں، اورنہ ہی میری طرف وحی ہوتی ہے مگر جتنی مجھ میں استطاعت ہے ؛اتنا کتاب اللہ پر عمل کرتا ہوں۔پس اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں سے جس چیز کا تمہیں حکم دوں ؛ توتم پر میری اطاعت کرنا واجب ہے؛ جس میں تم پسند کرو یا نا پسند کرو اور جس چیز کامیں تمہیں حکم دوں ؛یا میرے علاوہ کوئی حکم دے؛ اوروہ اللہ کی نافرمانی کا کام ہو،تواللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتے ہوئے کسی کی اطاعت نہیں کی جائے گی۔اطاعت نیکی کے کاموں میں ہے، اطاعت نیکی کے کاموں میں ہے …تین بار یہی فرمایا۔‘‘[2] نیز مجلسی نے حضرت علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ سے ہی روایت کیا ہے، آپ نے فرمایا: ’’اے اللہ ! میں غلو کرنے والوں سے ایسے ہی بری ہوں جیسے حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام عیسائیوں [کے غلو] سے بری ہیں۔ اے اللہ ! ان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رسوا رکھ اوران کی کبھی بھی مدد نہ کرنا۔‘‘[3] کشی نے روایت کیاہے کہ ’’بے شک ابو عبد اللہ علیہ السلام سے پوچھا گیا: یہ لوگ گمان کرتے ہیں کہ آپ غیب جانتے ہیں ؟تو انہوں نے کہا : ’’ سبحان اللہ ! اپنا ہاتھ میرے سر پر رکھ ؛ اللہ کی قسم ! میرے جسم میں کوئی بال ایسا باقی نہیں اور نہ ہی میرے سر میں ؛ مگر وہ کھڑاہوگیا ہے[رونگٹے کھڑے ہوگئے ہیں ]۔ پھر آپ نے فرمایا: اللہ کی قسم! ایسا ہر گز نہیں ہے، بلکہ یہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محض ایک روایت ہے۔‘‘[4] الکشی نے ابو بصیر سے روایت کیا ہے؛ میں نے ابوعبد اللہ علیہ السلام سے کہا : ’’ لوگ کچھ کہتے ہیں۔ فرمایا : کیا کہتے
[1] تفسیر ابن کثیر ۳/ ۳۰۸۔ [2] رواہ البخاري، کتاب الجنائز ؛ باب: ما یکرہ من اتخاذ المساجد علی القبور ح: ۱۳۳۰۔ [3] مسلم کتاب المساجد و مواضع الصلاۃ ؛ باب النہي عن بناء المساجد علی القبورح:۵۲۹۔ [4] ابو داؤد في سننہ ۲/۲۱۸۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اس کی سند حسن ہے۔ اقتضاء الصراط المستقیم ص: ۲۳۱۔