کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 436
صفات میں سے ہے جن سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو بہترین احوال میں موصوف کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’اللہ تعالیٰ نے عبودیت کی صفت کو اپنے نبی کی طرف ان تین مقامات پر منسوب کیا ہے جو کہ اشرف ترین مقامات ہیں۔ اسرا [و معراج] کے وقت۔ مقام دعوت پر ؛اور نزول قرآن کے وقت۔‘‘[1] نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر اس چیز سے منع کیا ہے جو غلو کی طرف لے جانے والی ہو۔ آپ نے اپنی امت کویہود و نصاریٰ کی اپنے انبیاء کی شان میں غلو سے خبردار کرتے ہوئے فرمایا؛ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : (( لعن اللّٰه الیہود و النصاریٰ، اتخذوا قبور انبیائہم مساجدا۔))[2] ’’ اللہ یہودیوں اور عیسائیوں پر لعنت کرے ؛ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا تھا۔‘‘ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : ’’اگر ایسے نہ ہوتا توآپ کی قبر کو ظاہرکردیتی مگر میں اس کو مسجد [سجدہ گاہ ] بنالینے سے ڈرتی ہوں۔‘‘[3] اسی طرح حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( لا تجعلوا بیوتکم قبورًا؛ ولا تجعلوا قبری عیدًا، و صلوا عليَّ فإن صلاتکم تبلغني حیثما کنتم۔)) [4] ’’اپنے گھروں کو قبرستان مت بناؤ، اور میری قبر کو عیدگاہ مت بناؤ اور مجھ پر درود پڑھو،بے شک تمہارا درود مجھ تک پہنچایا جاتا ہے، خواہ تم جہاں کہیں بھی ہو۔‘‘ سو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہوداور نصاریٰ کے اپنے انبیاء کی قبروں سے متعلق کرتوتوں سے خبردار کرتے ہیں۔ اور واضح کرتے ہیں کہ وہ اپنے اس فعل کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے لعنت اور اس کے غضب کے مستحق ٹھہرے۔ رافضی ان حدیثوں سے کتنے ہی دور ہوتے ہیں جب وہ اپنے ائمہ کی قبروں پر قبے اورچونا گچ عمارتیں کھڑی کرتے ہیں۔ اورلوگوں کو ان کی زیارت کی دعوت دیتے ہیں۔ اورائمہ کی زبانی روایات گھڑ کر قبروں کی عبادت کے فضائل، توسل اوران قبروں والوں سے شفاعت کے حصول کے بارے میں ان پر جھوٹ بولتے ہیں۔ اوران قبروں کو انہوں نے مسجدوں سے بڑھ کر آبادکیا ہوا ہے۔ اللہ کی قسم یہ لوگ اسی چیز کا شکار ہوچکے ہیں جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت پہلے سے ہی خبردار کیا تھا۔ یہ لوگ عمداً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی مخالفت کررہے ہیں۔ اس وجہ سے اللہ تعالیٰ کی لعنت اور اس کے غضب کے مستحق ٹھہرے۔
[1] رواہ الإمام أحمد فی المسند ۱/۳۴۷؛ من حدیث ابن عباس۔ وابن ماجۃ ۲/ ۱۰۰۸؛ شیخ سلیمان بن عبد اللہ کہتے ہیں : اس کی اسناد صحیح ہیں۔ تیسیر العزیز الحمید ۳۱۷۔ اور علامہ البانی نے ’’صحیح ابن ماجہ۔‘‘ میں اسے صحیح کہا ہے۲/ ۱۷۷۔ [2] البخاری :کتاب احادیث انبیاء، باب قولہ تعالی:﴿ واذکر فی الکتاب مریم﴾۔ح:۳۴۴۵۔