کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 433
اورحبیب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ آپ لوگوں کے لیے بیان کردیں کہ آپ اپنے نفس کے لیے بھی کسی نفع یا نقصان کے مالک نہیں ہیں۔ اورنہ ہی اپنے نفس کو کسی شر سے بچا سکتے ہیں، اور نہ ہی اپنی ذات کے لیے کوئی خیر کھینچ کر لاسکتے ہیں، [سوائے اس کے جو اللہ چاہے، اور آپ کے لیے مقدر میں لکھ دیا گیا ہو] اور نہ ہی آپ غیب جانتے ہیں سوائے ان امور کے جن کی اطلاع اللہ تعالیٰ نے آپ کو دے دی ہو۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿قُلْ لَّا أَقُوْلُ لَکُمْ عِنْدِیْٓ خَزَآئِنُ اللّٰہِ وَلَا أَعْلَمُ الْغَیْبَ وَلَا أَقُوْلُ لَکُمْ إِنِّیْ مَلَکٌ إِنْ أَتَّبِعُ اِلَّا مَا یُوحَیْ إِلَیَّ﴾ (الانعام:۵۰)
’’ کہہ دو کہ میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ تعالیٰ کے خزانے ہیں اور نہ (یہ کہ) میں غیب جانتا ہوں اور نہ تم سے یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں میں تو صرف اُس حکم پر چلتا ہوں جو مجھے (اللہ کی طرف سے) آتا ہے۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿قُلْ لَّا أَمْلِکُ لِنَفْسِیْ نَفْعًا وَلَا ضَرّاً اِلَّا مَا شَائَ اللّٰہُ وَلَوْ کُنتُ أَعْلَمُ الْغَیْْبَ لَاسْتَکْثَرْتُ مِنَ الْخَیْرِ وَمَا مَسَّنِیَ السُّوْئُ إِنْ أَنَا اِلَّا نَذِیْرٌ وَّبَشِیْرٌ لِّقَوْمٍ یُؤْمِنُوْنَ ﴾ (الاعراف: ۱۸۸)
’’کہہ دو کہ میں اپنے فائدے اور نقصان کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتا مگر جو اللہ چاہے اور اگر میں غیب کی باتیں جانتا ہوتا تو بہت سے فائدے جمع کر لیتا اور مجھے کوئی تکلیف نہ پہنچتی میں تو مومنوں کوڈر اور خوشخبری سنانے والا ہوں۔‘‘
اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو حکم دیتے ہیں کہ آپ لوگوں کے لیے واضح کردیں کہ بے شک آپ بشر ہیں۔ آپ نہ ہی غیب جانتے ہیں، اور نہ ہی اپنی ذات کے لیے کسی چیز کے مالک ہیں۔ ایسا ان راہوں کے بند کرنے کے لیے کیا ہے جو غلو کی طرف لے جانے والی ہیں۔اوراس امت کو ڈرانے کے لیے کیا ہے کہ یہ امت اپنے نبی کی شان میں ایسے غلو نہ کرے جیسے یہود و نصاریٰ نے اپنے اپنے انبیاء کی شان میں غلوکیا۔
جب یہ حال تمام مخلوق کے سردار کا ہے، جن کی منزلت اللہ کے ہاں سب سے بڑی ہے۔ تو یہ بات بدرجۂ اولیٰ ثابت ہوتی ہے کہ جو لوگ آپ سے فضیلت و منزلت میں کم ہیں ؛ ان کے لیے ان امور میں سے کچھ بھی ثابت نہ ہو۔
اس سے یہودیوں کا یہ دعویٰ باطل ہوتا ہے کہ ان کے بعض انبیاء اور حاخام غیب جانتے ہیں۔ اور ان کے لیے ربوبیت کی بعض صفات بیان کرتے ہیں۔ اور ایسے رافضیوں کے دعوے باطل ہوتے ہیں جو یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ ان کے ائمہ غیب جانتے ہیں ؛ اور جو کچھ ہوگیا ہے ؛ اور جو کچھ قیامت تک ہونے والا ہے، سب جانتے ہیں ؛ یہاں تک کہ انہیں اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات میں اس کاشریک بنالیا۔ جب یہ صفات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ثابت نہیں ہیں، تووہ ان لوگوں کے لیے کیسے ثابت کرتے ہیں جو شرف و منزلت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت ہی کم ہیں بلکہ وہ ائمہ جن کے لیے
[1] فتح القدیر ۱/ ۵۴۰۔